تمہید
منکرین حدیث اور مستشرقین طویل عرصے سے یہ الزام لگاتے آرہے ہیں کہ احادیث کا مجموعہ ایرانی سازش کا نتیجہ ہے، اور یہ داستان گویوں اور واعظوں کی من گھڑت حکایات پر مبنی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک صاحب لکھتے ہیں:
’’وفاتِ نبوی کے سینکڑوں برس بعد بعض ایرانیوں نے ادھر ادھر کی سنی سنائی اٹکل پچو باتوں کو جمع کرکے انہیں صحیح حدیث کا نام دے دیا۔‘‘
(نکارِ حدیث کے اصولی دلائل)
احادیث کے مجموعات مرتب کرنے والے افراد کی قومیت
آئیے پہلے اس دعوے کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعی احادیث کو جمع کرنے والے ایرانی تھے؟
دورِ اول کے محدثین
احادیث کو جمع کرنے والے اولین افراد میں شامل ہیں:
- ابن شہاب زہری
- سعید بن مسیب
- عروہ بن زبیر
- عمر بن عبدالعزیز رحمہم اللہ
یہ سب عرب تھے اور قریش کے معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ خاص طور پر حضرت عمر بن عبدالعزیز تو اسلامی تاریخ کے پانچویں خلیفہ راشد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
دورِ اول کے مدوّنینِ حدیث
پہلے دور کے معروف محدثین میں:
- امام مالکؒ: قبیلہ ذی اَصبح سے تعلق رکھتے تھے۔
- امام شافعیؒ: قریش کی شاخ بنو ہاشم سے تعلق رکھتے تھے۔
- امام احمد بن حنبلؒ: قبیلہ شیبان سے تھے، جن کا ایرانیوں کے ساتھ تاریخی طور پر سخت دشمنی کا رشتہ رہا۔
دورِ ثانی کے محدثین
دوسرے دور کے محدثین میں بھی ایرانی سازش کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا:
- امام بخاریؒ: بخارا (ماوراء النہر، ترکستان) کے رہنے والے۔
- امام مسلمؒ اور امام نسائیؒ: نیشاپور، جو ایران کا نہیں بلکہ خراسان کا حصہ تھا۔
- امام ابوداؤدؒ: سجستان (خراسان) سے۔
- امام ترمذیؒ: ترمذ (ماوراء النہر، ترکستان) سے۔
یہاں تک کہ جن محدثین کا تعلق ایران سے تھا، ان کی احادیث یا تو عربی محدثین کی مستند احادیث پر مبنی تھیں یا ان کا درجہ بہت کم تر تھا۔
مشہور عرب محدثین اور ان کے قبیلے
مشہور محدثین کی اکثریت عرب قبائل سے تعلق رکھتی تھی، جیسا کہ درج ذیل فہرست واضح کرتی ہے:
محدث کا نام | وفات کا سال | قبیلہ |
---|---|---|
امام مالکؒ | 179ھ | قبیلہ ذی اصبح |
امام شافعیؒ | 204ھ | قبیلہ قریش |
امام احمد بن حنبلؒ | 241ھ | قبیلہ بنو شیبان |
امام مسلمؒ | 261ھ | قبیلہ بنو قشیر |
امام ترمذیؒ | 279ھ | قبیلہ بنو سلیم |
امام نسائیؒ | 303ھ | نساء |
یہ فہرست واضح کرتی ہے کہ صحاح ستہ کے مصنفین میں 18 عرب اور صرف 4 عجمی محدثین شامل ہیں۔
ایرانی سازش کے دعوے کا تحقیقی تجزیہ
احادیث میں عربی فضیلت
احادیث میں عربوں کے فضائل اور ایرانیوں پر تنقید کی گئی ہے، جو کسی بھی "ایرانی سازش” کے دعوے کو مزید بے بنیاد ثابت کرتی ہے:
- حجاز کو "دین کی پناہ گاہ” کہا گیا ہے۔ (بخاری و مسلم)
- یمن کو "ایمان و حکمت کا مرکز” قرار دیا گیا۔ (بخاری و مسلم)
- شام کو "اسلام کا مضبوط قلعہ” کہا گیا۔ (بخاری، مسلم، ترمذی، مسند احمد)
- جبکہ عراق کو فتنہ و فساد کا مرکز اور ایرانی علاقوں کو خرابیاں اور آفات کا مسکن قرار دیا گیا ہے۔ (بخاری، طبرانی)
تاریخی حقائق اور فتوحات
اسلامی حکومت کے آغاز سے ہی مختلف اقوام اور ممالک فتح کیے گئے۔ لیکن اگر فتوحات کی بنیاد پر سازش کا دعویٰ کیا جائے تو پھر صرف ایران کو ہی کیوں نشانہ بنایا گیا؟ شام، مصر، روم، اور اندلس جیسی قوموں پر بھی مسلمانوں کا غلبہ ہوا، لیکن ان کے خلاف ایسی کسی "سازش” کا دعویٰ نہیں کیا گیا۔
ایرانیوں کی علمی خدمات
ایرانیوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اسلامی علوم کی بے مثال خدمت کی۔ انہوں نے دینِ اسلام کو اپنایا اور علمِ حدیث، تفسیر، اور فقہ میں عظیم کارنامے سرانجام دیے۔
مستشرقین کا کردار
یہ "ایرانی سازش” کا نظریہ دراصل یہودی مستشرق گولڈزیہر اور اس کے پیروکاروں کی اختراع ہے، جسے بعد میں غلام احمد پرویز اور دیگر منکرین حدیث نے پھیلایا۔
سازش کا منطقی تجزیہ
- اگر یہ سازش تھی تو محدثین کو شاہی دربار اور مال و دولت کی لالچ کیوں قبول نہیں ہوئی؟
- عرب اور عجمی محدثین کے درمیان تنقید و جرح ایک دوسرے کی تصنیفات پر ہوتی رہی، لیکن کسی بھی محدث نے ایسی سازش کا ذکر تک نہیں کیا۔
نتیجہ
ایرانی سازش کا نظریہ ایک جھوٹ اور من گھڑت افسانہ ہے، جسے مستشرقین اور ان کے مقامی مقلدین نے فروغ دیا۔ حقائق اور تاریخی شواہد اس الزام کی مکمل نفی کرتے ہیں۔