اہل کتاب کے ذبیحہ کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

اہل کتاب کے ذبیحہ کا حکم
اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے بشرطیکہ انہوں نے ذبح کے وقت اس پر اللہ کا نام لیا ہو ورنہ حلال نہیں ۔
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ [المائدة: 5]
”اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے ۔“
اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :
وطعامهم ذبائحهم
”اہل کتاب کے کھانے سے مراد ان کے ذبیحے ہیں ۔“
[بخارى: قبل الحديث / 5508 ، كتاب الذبائح والصيد: باب ذبائح أهل كتاب]
➋ ایک آیت میں ہے کہ :
وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ [الأنعام: 121]
”اور جس (ذبیحہ) پر اللہ کا نام نہ ذکر کیا گیا ہو اسے مت کھاؤ ۔“
➌ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرب کے عیسائیوں کے ذبیحوں کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا:
لا بأس بها
”انہیں کھانے میں کوئی حرج نہیں ۔“
اور پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی:
وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [المائدة: 51]
”اور تم میں سے جو شخص ان سے دوستی لگائے گا وہ ان میں سے ہی ہے ۔“
[مؤطا: 332/2]
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی عورت کا کھانا قبول فرمایا جس میں اس نے زہر ملا رکھا تھا ۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 3212 ، كتاب الأطعمة: باب فى اكل اللحم ، ابو داود: 3781]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1