اہل کتاب کے برتنوں میں بوقت مجبوری کھایا پیا جا سکتا ہے
وعن أبى ثعلبة الخشني رضى الله عنه قال: أتيت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فقلت: يا رسول الله إنا بأرض أهل الكتاب أفتأكل فى آنيتهم؟ وبأرض صيد أصيد بقوسي، وأصيد بكلبي المعلم و بكلبي الذى ليس بمعلم فقال النبى صلی اللہ علیہ وسلم : ( (أما ما ذكرت أنكم بأرض أهل الكتاب فلا تأكلوا فى آنيتهم إلا أن لا تجدوابدا، فإن لم تجدوا بدا فاغسلوا وكلوا وأما ما ذكرت أنكم بأرض صيد فما صدت بقوسك فاذكر اسم الله وكل وما صدت بكلبك المعلم فاذكر اسم الله وكل، وما صدت بكلبك الذى ليس بمعلم فأدركت ذكاته فكله ))
[أخرجه البخاري]
ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا کہ میں رسول الله صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا تو عرض کی یا رسول اللہ ! اہل کتاب کی سر زمین میں رہتے ہیں کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا لیا کریں؟ ہم شکار کے علاقے میں رہتے ہیں میں اپنی کمان سے شکار کرتا ہوں اور اپنے سدھائے مَا ہوئے کتے سے شکار کرتا ہوں اور اس کتے سے بھی جو سدھایا ہو انہیں نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو تم نے تذکرہ کیا کہ تم اہل کتاب کی سرزمین میں رہتے ہو تم ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ الا یہ کہ تم کوئی چارہ کار نہ پاؤ اگر اللهِ تمہارے لیے کوئی متبادل صورت نہ ہو تو دھو لو اور کھالو اور جو تو نے تذکرہ کیا کہ تم شکار کے علاقے میں رہتے ہو جو تم نے اپنی کمان سے شکار کیا اس پر اللہ کا نام لو اور کھا لو اور جو تو نے اپنے سدھائے ہوئے کتے کے ساتھ شکار کیا اس پر اللہ کا نام لو اور کھالو اور جو تو نے اس کتے سے شکار کیا جو سدھایا ہوا نہیں ہے تو نے اگر اسے ذبح کر لیا تو اسے کھاؤ ۔
تحقیق و تخریج: بخاری: 5496 5488٬5478 ، مسلم: 1930 ، دونوں میں فاغسلوها کا لفظ مذکور ہے ۔
فوائد:
➊ اہل کتاب (یہود) کے برتنوں میں بوقت مجبوری کھایا پیا جا سکتا ہے بشرطیکہ برتن اچھی طرح دھو لیے جائیں ۔
➋ تیر کے ساتھ شکار ہو یا شکاری کتے کے ساتھ بسم اللہ پڑھ کر اگر چھوڑا جائے تو وہ شکار حلال ہے خواہ زندہ ہاتھ لگے یا بے جان مگر وہ کتا جو شکاری نہیں جب تک اس کے پکڑے ہوئے شکار کو ذبح نہ کیا جائے جائز نہیں ہے ۔
➌ اسلام میں شکار کرنا ضرورت کے وقت جائز ہے فضول جانوروں کو مارنا یہ درست نہیں اس کا حساب ہوگا یا اس لیے پکڑنا کہ اس کو باندھ کر نشانہ پختہ کروں گا یہ سب حرام ہے ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: