اہل سنت والجماعت کون ہیں؟
اہل حدیث ہی اہل سنت،اہل حق اورسوادِاعظم ہیںـ یہ عقائد واعمال میں سلف صالحین کے پیروکارہیں،شیح الاسلام ابنِ تیمیہ رَحمہَ اللہُ (۷۲۸-۶۶۱ھ) فرماتےہیں:

 وبہذایتبّین أنّ أحقّ الناس بأن تکون ہی الفرقتہ الناجیتہ أہل الحدیث والسنّتہ، الذین لیس لہم متبوع یتعصّبون لہ إلاّ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم ، وہم أعلم الناس بأقوالہ ،و أحوالہ ،أعظمہم تمییزا بین صحیحہا وسقیمہا ، وأئمّتہم فقہاء فیہا وأہل معرفتہ بمعانیہا وأتباعا لہا تصدیقا وعملا وحبّا ، وموالاۃ لمن والاہا ، ومعاداۃ لمن عاداہا ، الذین یروون المقالات المجملتہ إلی ما جاء بہ من الکتاب والحکمتہ ، فلا ینصبون مقالتہ ویجعلونہا من أصول دینہم ، وجمل کلامہم إن لم تکن ثابتۃ فیما جاء بہ الرسول، بل یجعلون ما بعث بہ الرسول من الکتاب والحکمتہ ہوالأصل الذی یعتقدونہ ویعتمدونہ . . .

”ان ساری باتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ سب لوگوں میں سے فرقہ ناجیہ(نجات پانے والا فرقہ) ہونے کے زیادہ حق داراہل حدیث وسنت ہیں، جن کا سوائے رسول اللہ صلیٌ اللہ علیہِ وسلّم کےکوئی ایسا متبوع نہیں،جس کے لیے وہ مسلکی غیرت رکھتے ہوں۔ یہ اہل حدیث وسنت آپ صلَّی اللہ علیہِ وسَلَّم کے اقوال وافعال اورحالات کو دوسرے لوگوں سے زیادہ جاننے والے ہیں،نیزاحادیثِ نبویہ علی صاحبھَاٗالصَّلووالسَّلام  میں سے    صحیح وضعیف کی زیادہ       پہچان     رکھتے ہیں۔ ان    کے ائمہ فقہائے حدیث ہیں اور احادیث کے معانی کی معرفت رکھنے والے ہیں،نیزان احادیث کی تصدیق وعمل اور محبت کے اعتبار سے پیروی کرنے والے ہیں، وہ احادیث سے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھتے اوران سے عداوت رکھنے والوں سے دشمنی رکھتے ہیں۔ یہ لوگ (بزرگوں کے) مجمل مقالات کو کتاب وسنت پر پیش کرتے ہیں، اگر کوئی قول کتاب وسنت سے ثابت نہ ہوتو وہ اس قول کو اپنا نصب العین اور اپنا اصولِ دین نہیں بناتے، بلکہ وہ اسی کتاب وسنت کو اپنا عقیدہ بناتے اور اس پر اعتماد کرتے ہیں جسے دے کر رسولِ کریم صَلَّی اللہ علیہِ وسَلَّم مبعوث فرمائے گئے ہیں ۔” 

(مجموع الفتاوی لا بن تیمیۃ: ۳۴۷/۳)

❀ امام آجری رَحمہُ اللہ (م۳۶۰ھ) فرماتے ہیں :

علامۃ من   أراد اللہ عزّو جلّ بھ خیراً سلوک ھذہ الطریق، کتاب اللہ عزّوجلّ  وسنن  رسول اللہ صلّی  اللہ علیہ وسلّم، وسنن أصحابھ رضی اللہ عنھم ومن تبعہم بإحسان رحمۃ اللہ تعالی علیہم، وما کان علیھ أئمّۃ المسلمین فی کلّ بلدإلی آخر ما کان من العلماء، مثل الأوزاعی وسفیان الثوری وما لک بن أنس والشا فعی وأحمد بن حنبل والقاسم بن سلام، ومن کان علی مثل طریقہم ، ومجانبۃ کلّ مذہب لا یذہب إلیھ ہؤلاء العلماء . . .

   ” جن لوگوں کے ساتھ اللہ تعالٰی نے بھلائی کا ارادہ کیا ہے، ان کی علامت اس راستے پر چلنا ہے، وہ راستہ کتاب اللہ، سنتِ رسول ﷺ،آثارِ صحابہ رضوان اللہ عَلیْھم اجْمعَیْنٗ وتابعین   رَحمَہمُ اللہ ، نیز ہر علاقے کے ائمہ مسلمین اور اب تک کے  علمائے کرام ، مثلاً امام اوزاعی ، امام سفیان ثوری ، امام ملک بن انس ،امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، امام قاسم بن سلام رحمۃُاللہ عَلیہم  اور ان کے نقشِ قدم  پر چلنے والےعلمائے کرام کا راستہ اختیار کرنا اور ہر اس مذہب سے بچنا جس کو مذکورہ علمائے کرام نے اختیار نہیں کیا ۔ ”

       (الشریعۃ للاَجری : ص ۱۴، طبع دار الکتب العلمیۃ)

سنت سے کیا مراد ہے؟

❀ علامہ ابنِ رجب رَحمہُ اللہ سنت کی تعریف میں فرماتے ہیں :

الطریق المسلوک، فیشمل التمسّک بما کان علیہ صلّی اللہ علیہ وسلّم ھو وخلفائہ الراشدون من الاعتقادات والاعمال والأقوال، وھذہ ھی السنّۃ الکاملۃ ، ولھذا کان السلف قدیما لا یطلقون اسم السنّۃ إّلا علی ما یشمل ذلک کلّہ.

 ” سنت طریقہ مسلوکہ کو کہتے ہیں، یہ ان عقائد واعمال اور اقوال کا نام ہے، جس پر نبئ اکرم صَلَّی اللہ علیہِ وسَلَّم اور آپ کے خلفائے راشدین کاربند رہے ۔ یہی سنتِ کاملہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ سلف ، سنت کا نام اسی چیز پر بولتے تھے، جو ان سب چیزوں کو شامل ہوتا تھا ۔”

(جامع العلوم والحکم لا بن رجب :ص ۲۸۶)

 اہل سنت کون؟

❀ امام سجزی رحمہ اللہ (م۴۴۴ھ ) لکھتے ہیں :

” اہل سنت اس اعتقاد پر قائم ہیں ، جسے ان کی طرف سلف صالحین نے رسول اللہ  صلیٌ اللہ علیہ و سلٌم سے نقل کیا ہے یا جس چیز میں کتاب و سنت کی نص نہیں ملی، اس میں آپ صلیٌ اللہ علیہ و سلٌم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے نقل کیا ہے، کیونکہ صحابہ کرام ائمہ تھے، ہمیں ان کے آثار اور ان کی سنت کے اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں،اسی طرح سنت کو لازم پکڑنا اور اس پر اعتقاد رکھنا ان چیزوں میں سے ہے جن کے وجوب میں کوئی شک و شبہ نہیں۔”

(الردعلی من انکر الحروف والصوت للسخری : ص ۹ )

❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (۵۹۷-۵۰۸ھ ) اہل سنت کی تعریف میں لکھتے ہیں:

” اگر کوئی سوال کرنے والا یہ سوال کرے کہ سنت ممدوح اور بدعت مذموم ہے لیکن سنت اور بدعت ہے کیا؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر بدعتی یہ دعوٰی کرتا ہے کہ وہ اہل سنت میں سے ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سنت لغوی طور پر راستے کو کہتے ہیں ۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اہل نقل و اثر جو کہ رسول اللہ صلیٌ اللہ علیہ و سلٌم کی احادیث اور صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار کی پیروی کرنے والے ہیں، وہی اہل سنت ہیں ، کیونکہ وہ راستے پر ہیں،جس میں کوئی بدعت داخل نہیں ہوئی۔ بدعات تو رسول اللہ صلیٌ اللہ علیہ و سلٌم اور آپ صلیٌ اللہ علیہ و سلٌم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد رونما ہوئی ہیں۔ ”

(تلبیس ابلیس لابن الجوزی : ۱۳۶-۱۳۵/۱ )

واضح رہے کہ اہل سنت کی اصطلاح کا اطلاق دو طرح سے ہوتا ہے،عام اور خاص۔ عام اطلاق سے مراد جوبھی شیعہ کے مقابلے میں ہوگا، وہ سنی کہلوائے گا، خواہ وہ بدعتی ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رَحمہُ اللہ لکھتے ہیں :

      فلفظ السنّۃ یرادبہ من أثبت خلافۃ الخلفاء الثلاثۃ ، فیدخل فی ذلک جمیع الطوائف إّلا الرافضۃ ۔

 ” (اہل)سنت کے لفظ سے مراد ،وہ لوگ ہیں،جوخلفائے ثلاثہ (سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق، سیدناعثمان غنی رضی اللہُ عنہُم) کی خلافت کا اثبات کرتے ہیں،چنانچہ اس میں رافضیوں کے علاوہ باقی سب گروہ داخل ہوں گے۔ ”

               (منھاج السنۃ لابن تیمیۃ :۲۲۱/۲)

خاص اطلاق سے مراد ہروہ شخص ہے ،جواہل بدعت،یعنی شیعہ، خوارج، جہمیہ،معتزلہ،مرجئہ اور اشاعرہ وغیرہ کے مقابلے میں ہو ، جیسا کہ

❀  شیخ الا سلام ابنِ تیمیہ رَحمہُ اللہ لکھتے ہیں :

    وقد یرادبہ أھل الحدیث والسنّۃ المحضۃ ، فلا ید خل فیھ إّلا من أثبت الصفات للہ تعالٰی ،ویقول : أنّ القرآن غیر مخلوق وإنّ اللہ یری فی الآ خرۃ ، ویثبت القدر ، وغیر ذلک من الأصول المعوفۃ عند أھل الحدیث والسنَۃ ۔

” بسا اوقات اہل سنت سے مراد خاص اہل الحدیث والسنہ مراد ہوتے ہیں، چنانچہ اس وقت اس میں صرف وہی لوگ داخل ہوں گے، جو صفاتِ باری تعالٰی کا اثبات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآنِ کریم مخلوق نہیں، نیز آخرت میں (مومنوں کو) اللہ تعالٰی کا دیدار ہوگا،اس کے علاوہ دیگر ان اصولوں کو بھی تسلیم کرتے ہیں، جواہل الحدیث والسنہ کے ہاں معروف ہیں ۔ ”

      ( منھاح السنۃ لابن تیمیۃ :۲۲۱/۲)

لٰہذاموجودہ دور کے بعض نام نہاد اہل سنت، جوصرف سات صفاتِ باری تعالٰی کا اثبات کرتے ہین ،وہ اہل سنت نہیں ہیں۔ وہ سات صفات یہ ہیں :    السمع ، البصر،العلم، الکلام، القدرۃ،الارادۃ الحیاۃ    باقی سب صفات میں یہ لوگ تاویل کرتے ہیں۔ یہ عقائد میں ،خصوصاً صفاتِ باری تعالٰی کے حوالے سے معتزلہ، مرجئہ اور اشاعرہ کے مذہب پر ہیں اور اہل سنت وسلف صالحین کے مذہب سے منحرف ہیں جیسا کہ :

        ❀    خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی صاحب (م۱۳۴۶ھ)لکھتے ہیں:

” ہمارے متاخرین اماموں نے ان آیات میں جو صحیح اور لغت وشرع کے اعتبار سے جائز تاویلیں فرمائی ہیں تا کہ کم فہم سمجھ لیں،مثلاً یہ کہ استواء سے مراد غلبہ ہواور ہاتھ سے مراد قدرت تو یہ بھی ہمارے نزدیک حق ہے۔ ”

 (المہند علی المفند :ص ۴۸ )

جبکہ سلف صالحین کے نزدیک یہ باطل ہے ، ایسوں کے بارے میں شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رَحمہُ اللہ فرماتے ہیں:

 ” جس نے قرآن یا حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے صحابہ وتابعین کی تفسیر کے خلاف کوئی تاویل کی، وہ اللہ تعالٰی پر بہتان باندھنے والا ، اللہ تعالٰی کی آیات میں الحاد سے کام لینے والا اور اللہ تعالٰی کے کلمات میں تحریف کرنے والا ہے ۔ ایسا کرنا بے دینی والحاد کے دروازے کو کھولنے کے مترادف ہے اور یہ چیز اللہ تعالٰی کے دین اسلام میں واضح طور پر باطل ہے ۔”

 (مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ :۲۴۳/۱۳)

ہمارے دور کے بدعتی اپنے تئیں اہل سنت کہتے نہیں تھکتے ، جبکہ وہ عقائد واعمال میں سلف صالحین کے سخت مخالف ہیں۔

❀ علامہ شاطبی رَحمہُ اللہ (م۷۹۰) لکھتے ہیں :

  فلیکن اعتقادک أنّ الحقّ مع السواد الأعظم من المجتہدین ۔

  ” آپ کا اعتقاد یہ ہونا چاہیے کہ حق مجہتدین کے سوادِاعظم کے ساتھ ہے ، مقلدین کے ساتھ نہیں۔”

(الموافقات للشاطبی: ۱۷۳/۴)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے