اہل حدیث کا علیحدہ مسجد بنانے کا حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ، جلد 1، ص 220-221

سوال

ایک گاؤں میں اہل حدیث اور حنفی دونوں فرقوں کے افراد موجود ہیں اور دو امام ہیں۔ مذہبی تنازع اتنا بڑھ گیا ہے کہ فتنہ و فساد اور خونریزی کی نوبت پہنچ چکی ہے۔ اہل حدیث علیحدہ مسجد بنانا چاہتے ہیں، کیا شرع محمدی کے مطابق ان کے لیے علیحدہ مسجد بنانا جائز ہے؟

جواب

اگر گاؤں میں موجودہ مسجد میں نماز پڑھنے یا سنت کے مطابق عبادات کرنے میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں، اور فتنہ و فساد کی نوبت خونریزی تک پہنچ چکی ہے، تو ایسی صورت میں اہل حدیث کے لیے علیحدہ مسجد بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ شرعی طور پر یہ جائز ہے کہ ایسی حالت میں علیحدہ مسجد بنائی جائے تاکہ فتنہ و فساد سے بچا جا سکے اور عبادات کو امن و سکون کے ساتھ انجام دیا جا سکے۔

حدیث مبارکہ میں ہے:

"من بنی اللّٰہ مسجداً بنی اللّٰہُ لہ بیتًا فی الجنة”
(ترجمہ: جو اللہ کے لیے مسجد بناتا ہے، اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے۔) (رواہ ابو داؤد)

اگر حالات اس حد تک خراب ہو چکے ہوں کہ اصلاح کی کوئی صورت نظر نہ آئے اور خونریزی کا خطرہ ہو، تو اہل حدیث کے لیے فتنہ سے بچنے کے لیے علیحدہ مسجد بنانا بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"والفتنة اشد من القتل”
(ترجمہ: فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین ہے۔)

تاہم، جہاں تک ممکن ہو، اصلاح کی کوشش کی جائے اور ایک ہی مسجد میں نماز ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن اگر کوئی اور حل نہ نکل سکے تو اہل حدیث کے لیے علیحدہ مسجد بنانا درست ہے، بشرطیکہ وہ مسجد ایسی جگہ بنائی جائے جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ نماز میں شرکت کر سکیں اور اس کا مقصد محض عبادات کا اہتمام اور احکام الٰہی کا نفاذ ہو۔

حوالہ: (احمد اللہ، مدرسہ زبیدیہ، ۲۶ شوال ۱۳۵۶ھ)
(ابو سعید شرف الدین، مدرسہ سعیدیہ، ۳ ذیقعد ۱۳۵۶ھ)
(محمد یونس، مدرسہ حضرت میاں صاحب، ۱۲ ذیقعد ۱۳۵۶ھ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!