فلسفہ وحدت الوجود
اہل تصوف کا نظریہ ’’وحدت الوجود‘‘ سراسر گمراہی ، شرک اور افتراء علی اللہ ہے۔ اس کا تعلق کسی طور پر شریعت اسلامیہ سے نہیں ۔ دراصل ’’وحدت الوجود‘‘ کا فلسفہ اہل تصوف نے ’’ہندومت‘‘ سے لیا ہے، ہندو جوگیوں میں شرک پھیلنے کا سب سے بڑا سبب نظریہ ’’وحدت الوجود‘‘ ہے۔ ہندو لوگ اس کو ’’ہر میں ہر ہے‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں یعنی ہر چیز میں اللہ موجود
ہے، اور فارسی زبان کے درویش اس فلسفہ کو ’’ہمہ اوست‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک نہ صرف انسان بلکہ کتا، بلی ، خنزیر، چرند، پرند غرض دنیا کی ہر شئے رب ہے ۔ ہند و درویش کہتے ہیں:
’’ماس ماس سب ایک ہے کیا سور کیا گائے ۔‘‘
اسلام میں اس فلسفہ کی ابتداء:
فلسفہ ’’وحدت الوجود‘‘ کی داغ بیل ڈالنے والے یقیناً جنید بغدادی ہیں۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے ان کے رسائل سے توحید اور ذات و صفات باری تعالی کے متعلق جو تعلیمات اخذ کی ہیں، ان میں سے چند کا ذکر ذیل کی سطور میں کیا جاتا ہے۔
جنید بغدادی سے جب توحید کا معنی و مفہوم دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
’’اللہ بندے پر بندے کی حیثیت سے موت وارد کر دے اور پھر اپنی ذات میں اسے دوبارہ زندہ کر دے۔“
تاریخ تصوف، از پروفیسر یوسف سلیم چشتی ۲۳۷ بحواله رسالة فشيريه، ص: ١٢٦.
پروفیسر صاحب مزید رقم کرتے ہیں:
’’جنید نے اس امر کی صراحت بھی کی ہے کہ اللہ کی صفات اور اس کے افعال سب اس کی ذات میں مندمج ہیں یعنی اس میں داخل ہیں، کہ ان میں کوئی امتیاز نہیں ہے اور جب سالک تو حید کے اس مقام پر ہوتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے که صفات و افعال سب ذات میں مندمج ہیں۔ اس وقت وہ خود بھی بالکلیہ ذات الہی میں جذب ہو جاتا ہے۔ یعنی من تو شدم تو من شد والا معاملہ ہو جاتا ہے۔‘‘
تاریخ تصوف، پروفیسر یوسف سلیم چشتی ص: ۳۲۷، مطبوعہ لا ہور ۔
جنید بغدادیؒ کے شاگرد حسین بن منصور حلاج ( مصلوب سنہ ۳۰۹ ھ ) کو ’’بغداد میں بڑے وحشیانہ طریق سے قتل کیا گیا۔ اس نے دولفظوں میں ایک ایسا جملہ اپنی زبان سے ادا کیا جسے اسلام نے معاف تو کر دیا ہے، مگر فراموش نہیں کیا ۔ ’’ أَنَا الْحَقُّ “ یعنی ” میں خدا ہوں۔‘‘
تاریخ تصوف، پروفیسر یوسف سلیم چشتی ہیں :۲۶۴۔
نیز کہتا ہے:
’’میں وہی تو ہوں جسے میں چاہتا ہوں یا محبت کرتا ہوں اور وہ جس سے میں محبت کرتا ہوں، میں ہے۔ ہم دو روحیں ہیں جو ایک ہی جسم میں رہتی ہیں، اگر تو مجھے دیکھتا ہے تو گویا اسے دیکھتا ہے اور اگر تو اُسے دیکھتا ہے تو گویا ہم دونوں کو دیکھتا ہے۔‘‘
تاریخ تصوف از یوسف چشتی ص : ۲۶۵۔
اور ابن عربی بھی اسی باطل عقیدہ کے حاملین میں سے ہیں۔ اپنی پوری زندگی اس کی اشاعت اور تبلیغ میں مصروف رہے۔ چنانچہ وہ اپنی اس سعی میں کامیاب رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اکثر مسلمان اور درویش بھی اس رو میں بہہ نکلے۔ شیخ ابن عربی اپنی مشہور تصنیف ’’فتوحات مکیہ‘‘ میں ’’وحدت الوجود‘‘ کی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:
’’پاک ہے وہ ذات جس نے اشیاء کو پیدا کیا اور خود عین اشیاء رہا۔“
بحوالہ اسلام میں بدعت و ضلالت کے محرکات ص: ۱۹۲۔
اپنی دوسری تصنیف ’’فصوص الحکم‘‘ میں رقم کیا ہے:
’’ اے اشیاء کو پیدا کرنے والے اور خود ان میں شامل رہنے والے یقینا تو اپنی مخلوق میں خود ملا ہوا ہے، تو جو چیز پیدا کرتا ہے وہ تیری ذات میں لا انتہاء ہے (گویا) تو ایک طرف محدود ہے اور دوسری طرف لا محدود۔‘‘
حوله أيضا.
تصوف کے یہ ’’شیخ اکبر‘‘ اس کفریہ عقیدہ میں اس قدر بے خود ہو جاتے ہیں کہ فرماتے ہیں:
’’یہ کتے اور سور ہی تو ہمارے الٰہ ہیں۔ اللہ تو گرجے میں پادری بنا بیٹھا ہے ۔‘‘ ( نعوذ باللہ من ھذہ الخر عبلات )
تصوف تحقیق و تجزیه حکم نبی احمد خان نعمانی رام پوری، بحوالہ نوائے اسلام دیلی ص: ۱۰، جولائی ۱۹۹۰ء۔
قرآنی آیات کی باطل تاویلات :
’’ شیخ اکبر‘‘ قرآنی آیات کی باطل اور من مانی کی تاویلات کرتے ہیں اور ان کو قرآن کی اصل تعلیمات بتاتے ہیں اور ’’وحدت الوجود‘‘ کو قرآنی تصوف سے موسوم کرتے ہیں۔ لیجیے باطنی تغییر یا تاویل باطل کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔
سورۃ اعراف آیت ۱۵۶ میں ارشاد الہیٰ ہے:
((قَالَ عَذَابِیْۤ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُۚ-وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍؕ))
’’سزا تو میں جس کو چاہتا ہوں دیتا ہوں مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔“
ابن عربی کے نزدیک اس کی تاویل یہ ہے:
((أَي عَذَابُ الشَّوْقِ الْمَخْصُوصِ فِي الْحَاصِلُ مِنْ جِهَتِي وَإِنْ كَانَ إِلَيْهَا أَلَمُ الْفِرَاقِ لَكِنَّهُ أَمْرٌ عَزِيزٌ خَطِيرٌ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ لَا تَخْتَصُّ بِأَحَدٍ دُونَ أَحَدٍ غَيْرَهُ وَشَيْءٌ دُونَ شَيْءٍ . ))
تفسير محي الدين ابن عربی، ص: ۱۲۲۔
’’یعنی وہ شوق جو میری وجہ سے اور میری طرف سے حاصل ہو اگر چہ یہ الم فراق کی شدت کی وجہ سے تکلیف دہ ہے، لیکن وہ نادر اور بلند مرتبہ چیز ہے اور میری
رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی شخص اور کسی شے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔“
قارئین کرام! آپ نے اللہ تعالی کی وسعت رحمت کی ناقدری ملاحظہ فرمائی۔ اب ذرا رحمت کے مقابلہ میں اس کے عذاب کی فضیلت بھی ملاحظہ فرمالیں ۔ ابن عربی رقمطراز ہیں:
((وَلَعُمُرِى إِنَّ هَذَا الْعَذَابَ أَعَزُّ مِنْ كِبَرِيتِ الْأَحْمَرِ وَأَمَّا رَحْمَتُهُ فَلَا يَخُلُو مِنْ حَظِّ مِنْهَا أَحَدٌ .))
حوله أيضا۔
’’اور یہ عذاب سرخ گندھک سے زیادہ قیمتی اور کمیاب ہے۔ باقی رہی رحمت (الہیٰ) تو ہر شخص کو اس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ ملتا ہے۔“
سید رشید رضا مصریؒ شیخ ابن عربی کے ’’فلسفہ وحدۃ الوجود‘‘ کا رد کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
(( وَيُصَرِّحُ بِأَنَّ الْخَالِقَ وَالْمَخْلُوقَ وَاحِدٌ فِي الْحَقِيقَةِ وَإِنَّمَا الْاِخْتِلَافُ فِي الصُّورَةِ. ))
تفسير المنار: ٣٧٩/١٠۔
اور (ابن عربی) اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ خالق اور مخلوق میں صرف شکل وصورت کا فرق ہیں لیکن در حقیقت خالق اور مخلوق ایک ہی چیز ہے۔“
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے ’’وحدت الوجود‘‘ کے قائل صوفیاء کے عقائد کا خلاصہ اور نچوڑ پیش کیا ہے، جو درج ذیل ہے:
➊ اللہ نے نہ کوئی چیز پیدا کی ہے اور نہ ان کی صورتیں بنائی ہیں، اس لیے کہ اس کے وجود کے سوا کسی اور شے کا وجود ہی نہیں ۔ لہٰذا رب اپنی ذات کا خالق کیسے ہو سکتا ہے؟
➋ اللہ نے نہ کوئی چیز پیدا کی ہے اور نہ ان کی صورتیں بنائی ہیں، اس لیے کہ اس کے وجود کے سوا کسی اور شے کا وجود ہی نہیں ۔ لہٰذا رب اپنی ذات کا خالق کیسے ہو سکتا ہے؟
➌ الله رب العالمین نہیں ہے اور نہ مالک الملک ہے، اس لیے کہ اس کے وجود کے سوا کسی شے کا کوئی وجود ہی نہیں، بلکہ سب کچھ اس کی ذات ہے، لہذا رب اپنی ذات کا ’’رب‘‘ کیسے ہو سکتا ہے؟ (حالانکہ اللہ نے خود کو سورۃ الفاتحہ میں رب العالمین فرمایا ہے اس طرح یہ لوگ قرآن کو جھٹلاتے اور اس سے انکار کرتے ہیں۔ )
➍ اللہ کسی کا خالق نہیں، اس نے کسی کو کچھ نہیں دیا، کسی پر رحمت نہیں فرمائی کسی کو ہدایت نہیں دی۔ کسی کو قسم کی کوئی نعمت عطا نہیں فرمائی، کسی کو کوئی علم نہیں سکھایا، اس کے ذریعہ نہ کسی کو خیر پہنچانه شر، نہ نفع نہ ضرور، نہ عطاء، نه منع نہ ہدایت نہ ضلالت، کیونکہ ہر چیز الله ہے۔ نہ کوئی عبد ہے جسے روزی دی جائے ، نہ کوئی گمراہی ہے جسے ہدایت دی جائے۔ (اس طرح یہ لوگ گویا رسالت اور انبیاء ورسل کے منکر ہیں ۔ )
عقيد ووحدۃ الوجود اور اتحادیوں کی تباہ کاریاں، عبدالوہاب تجازی ص ۱۰۹، محدث بنارس شوال سنہ ۱۴۱۰ھ
قارئین! ہمارے ہاں ہمارے انتہائی قریبی دوست عبد الرحمن آئے تو ان کے ساتھ انہی عقائد کا حامل شفقت شاہ نامی ایک آدمی تھا ، وہ کہہ رہا تھا کہ جو شخص یہ کہے کہ اللہ تعالی نے فلاں پر رحمت کی ہے، اپنا فضل کیا تو وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے، کیونکہ وہ کسی پر بھی اپنی رحمت نہیں فرماتا اور نہ فرمائی ہے۔ کہنے لگا کہ ٹی وی پر اکثر ایک بات بیان کی جاتی ہے کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، ایک دن میں نے اپنے گھر والوں سے کہا دیکھو میں نبی ﷺ نام پر سو (۱۰۰) مرتبہ درود بھیجتا ہوں یہ جملہ جب میں نے ادا کر دیا تو گھر والوں سے پوچھا کہ میں نے سو (۱۰۰) مرتبہ درود بھیجا ہے یا نہیں؟ تو جواب ہاں میں تھا، پھر کہتا ہے کہ میں نے کہا اب مجھے بتلاؤ مجھے پر اس کے بدلہ میں کون سی رحمت نازل ہوئی ہے؟ یہ سب جھوٹ ہے۔ (العیاذ باللہ)
اور رسول اللہ لﷺ کے متعلق ان کا نظریہ ملاحظہ فرمائیں۔ عالم عرب کے مشہور قلمکار شیخ عبد الرحمٰن عبد الخالق اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’فضائح صوفیہ، ص: ۴۵-۴۴، مطبوعہ کو یت“ میں رقم کرتے ہیں:
(( يَعْتَقِدُ الصُّوفِيَةُ فِي الرَّسُول أَيْضًا عَقَائِدَ شَتَّى فَمِنْهُمْ مَنْ يُزَعَمُ أَنَّ الرَّسُولَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَصِلُ إِلَى مَرْتَبَتِهِمْ وَحَالِهِمْ وَإِنَّهُ كَانَ جَاهِلا لِعُلُومِ رِجَالِ التَّصَوُّفِ كَمَا قَالَ الْبَسْطَامِي: حُضُنَا بحْرًا وَقَفَ الْأَنْبِيَاءُ بِسَاحِلِهِ.))
رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بھی صوفیاء مختلف عقائد رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ گمان رکھتے ہیں کہ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ ان کے مرتبہ و حال تک نہیں پہنچ سکتے ، کیونکہ وہ اہل تصوف کے مخصوص علوم سے ناواقف تھے۔ چنانچہ (بایزید) بسطامی کا کہنا تھا کہ:
ہم (معرفت کے ) سمندر میں گھس گئے مگر انبیاء ورسل ساحل پر ہی کھڑے رہ گئے ۔‘‘
بہر حال شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ مزید بیان کرتے ہیں کہ فلسفہ وحدت الوجود کے حاملین کا کہنا ہے ؛
➎ انسانوں کو اللہ اور اس کے دین کی طرف دعوت دینا ان کے ساتھ مکر و فریب ہے۔ انسان خود اپنی غایت ہے، اپنا معبود ہے، خود اللہ ہے اس سے ماوراء کوئی چیز نہیں جس کی وہ عبادت کرے یا دوسروں کو عبادت کے لیے دعوت دے۔
➏ اللہ ہی رکوع و سجود کرتا ہے اور بندگی و اطاعت کرتا ہے۔ وہی روزہ رکھتا ہے اور بھوکا رہتا ہے۔ وہ سوتا اور جاگتا ہے۔ اس کو بیماری لاحق ہوتی ہیں اور اسی کو شفا ملتی ہے۔ وہ تمام نقائص و عیوب سے متصف ہے ۔ ہر کفر وفسق اس کے وجود کا حصہ ہے ، کیونکہ اس کے سوا کسی چیز کا وجود نہیں۔
➐ فرعون اور دجال جیسے مدعیان الوہیت ان کے نزدیک قابل تعظیم ہیں ۔ فرعون اور ابلیس دونوں عارف باللہ تھے اور ان کو نجات ملے گی۔ ان لوگوں کے نزدیک فرعون کا علم موسیؑ سے زیادہ تھا، کیونکہ کسی بھی چیز کی عبادت در حقیقت اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت ہے۔ ابن عربی فرعون کے قول (أَنَا رَبُّكُمُ الأعلی) کی توضیح کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ایک نسبت سے سب ہی رب ہیں، لیکن ان سب میں اعلیٰ و ارفع میں ہوں، کیونکہ تمہارے درمیان بظاہر حکومت کا منصب بھی میرے پاس ہے۔
➑ جن لوگوں نے لات ، عزمی ، مناق ، وو ، سواع ، یغوث، یعوق ، نسر، شعری مجم ، شمس، قمر مسیح ، عزیر اور ملائکہ کی عبادت کی نیز قوم نوح، عاد، شهود، قوم فرعون ، بنی اسرائیل اور جملہ مشرکین نے جتنے بتوں کی عبادت کی دراصل انھوں نے اللہ کی ہی عبادت کی! اس کا تصور بھی نہیں ہو سکتا کہ انھوں نے اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کی ہو، کیونکہ ہر چیز میں اللہ موجود ہے!
عقیدہ وحدۃ الوجود اور اتحادیوں کی تباہ کاریاں، عبدالوہاب حجازی، ص:۱۰۹، محدث بنارس شوال سنہ ۱۳۱۰، بحوالہ اسلام میں بدعت و ضلالت کے محرکات ص: ۲۰۷، ۲۰۸ ۔
وحدت الوجود اور وحدت ادیان:
ان لوگوں کے نزدیک ایمان و کفر و غیرہ کا تفرقہ بھی راستوں تک ہے، منزل پر نہیں۔ ہر گر وہ صحیح راستے پر ہے، سلسلہ چشتیہ کے ایک مشہور بزرگ شاہ نیاز احمد بریلوی کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں ، جن میں وحدت الوجود اور وحدت ادیان کی صریح وکالت کی گئی ہے۔ مثلاً :
یہ سب ادیان و ملل میں شاخ ہائے یک درخت ایک جڑ سے ہیں یہ نکلی ڈالیاں سب پھوٹ پھوٹ جو رب الحرم ہے صنم بھی وہی ہے حرم و دیر میں یکساں دیکھتا ہوں
اسے برہمن اور اسے شیخ مانے یہ آپس کا جھگڑا یہاں دیکھتا ہوں
تاریخ مشائخ چشت از پروفیسر خلیق احمد نظامی ۔
مولانا روم کے ملفوظات ’’فیہ مافیہ‘‘ میں لکھا ہے:
’’ایمان و کفر کا تفرقہ بھی راستوں تک ہے، منزل پر نہیں۔ سب بخشیں ، جھگڑیں، یہ راستہ غلط ، وہ راستہ صحیح ، یہ حق پر ، وہ باطل پر ۔ جب منزل پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ سب اختلاف راستے کے تھے اور بس، منزل مقصود سب کی ایک تھی ۔“
بحوالہ افکار روی ، مولانا عبدالسلام رام پوری، ص: ۱۹۳۔
قرآن وسنت سے اس نظریہ کا رد:
لیکن جب ہم فلسفہ وحدۃ الوجود اور وحدت ادیان کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں تو یہ گمراه کن تو ہمات (هَبَآءً مَّنْثُوْرًا) کی طرح اڑ جاتے ہیں۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
( اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا یَسْتَوٗنَ)
(السجدة : ١٨)
’’ کیا جو شخص مومن ہوگا اس جیسا ہوگا جو فاسق ہوا، دونوں قسم کے لوگ برابر نہیں ہو سکتے ہیں۔‘‘
مزید فرمایا:
(لَلَا یَسْتَوِیْۤ اَصْحٰبُ النَّارِ وَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِؕ-اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ)
(الحشر: ٢٠)
’’اہل جہنم اور اہل جنت برابر نہیں ہو سکتے ، اہل جنت ہی کامیاب لوگ ہیں ۔“
مذکورہ بالا اور اس قسم کی بے شمار قرآنی آیات پکار پکار کر اعلان کر رہی ہیں کہ مومنین اور کفار کے درمیان عقیدہ و عمل کی تقسیم خود اللہ رب العزت نے فرمائی ہے، مگر ارباب فلسفہ وحدة الوجود اس تقسیم سے راضی نہیں سخت نالاں ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے شر اور فتنہ سے محفوظ رکھے۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ ﷺ اس عقیدہ کی شدت سے نفی کرتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنی مخلوق سے بائین ہے۔ (( منبابن عن الخلق .)) ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وحدۃ الوجود کا نظریہ غلط اور سرا سر شرک ہے۔
اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔
(اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى)
(طهٰ: ٥)
’’وہ نہایت مہربان عرش پر مستوی ہے ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کی یہ صفت (استواء ) سورۃ الاعراف آیت (۵۴) اور سورہ یونس آیت (۳) میں موجود ہے۔
اکابرین و سلف صالحین سے اس فتنہ کا سد باب:
جب بھی کسی فتنہ نے سر اٹھایا تو سلف نے اس کی سر کوبی کی ، لہٰذا اس فتنہ کے قلع قمع اور اس عقید ہ شرکیہ کی بیخ کئی میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی، چنانچہ علامہ ابن قیمؒ فلسفہ وحدت الوجود پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
((بَطَلَ قُولُ أَهْلِ الْإِلْحَادِ الْقَائِلِينَ بِوَحْدَةِ الْوُجُودِ .))
التفسير القيم لابن القيم الجوزية، تفسير سورة الفاتحه.
’’ان ملحدین کا قول باطل ہوا ، جو وحدت الوجود کے قائل ہیں ۔“
امام غزالیؒ اپنی مشہور کتاب ’’ التفرقة بين الإسلام والزندقة “ میں لکھتے ہیں :
(( وَمِنْ جِنْسِ ذَلِكَ مَا يَدَّعِيْهِ بَعْضُ مَنْ يُدْعَى التَّصَرُّفَ أَنَّهُ بَلَغَ حَالَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللهِ تَعَالَى أُسْقِطَتْ عَنْهُ الصَّلَوةُ وَحَلَّ لَهُ شُرَبُ الشكرِ الْمَعَاصِي فَهَذَا مِمَّا لَا أَشُتُ فِي وُجُوبِ قَتْلِهِ إِذْ ضَرَرُهُ فِي الدِّينِ أعْظَمُ . ))
شامی، کتاب الجهاد، باب المرتد.
’’از میں قسم بعض مدعیان تصوف کا ادعا ( باطل ) ہے کہ وہ عند اللہ ایسی حالت کو پہنچ گیا ہے کہ اس سے نماز ساقط ہوگئی اور اس کے لیے شراب نوشی وغیرہ گناہ حلال ہو گئے ، یہ ایسی صورت ہے کہ میں اس کے قائل کے قتل کے وجوب میں کوئی شک نہیں کرتا ، جب کہ اس کا دینی نقصان عظیم ہے۔“
اللہ تعالیٰ فہم حق کی توفیق ارزانی فرمائے ۔ (آمین)