اگر مرد مسلمان ہو جائے اور عورت نے دوسرا نکاح نہ کیا ہو تو وہ اپنے پہلے نکاح پر ہی قائم ہوں گے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

اگر مرد مسلمان ہو جائے اور عورت نے دوسرا نکاح نہ کیا ہو تو وہ اپنے پہلے نکاح پر ہی قائم ہوں گے خواہ کتنی ہی لمبی مدت گزر چکی ہو بشرطیکہ دونوں اکٹھے رہنا چاہیں
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
رد رسول الله صلى الله عليه وسلم ابنته زينب على أبى العاص فى النكاح الأول ولم يحدث شيئا
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب کو ابو العاص کی طرف پہلے نکاح میں ہی لوٹا دیا ، نیا نکاح نہیں کیا ۔“
ایک روایت میں ہے کہ دو سال کے بعد لوٹایا ، ایک میں تین سال کے بعد اور ایک میں چھ سال کے بعد کا ذکر ہے۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 1957 ، كتاب النكاح: باب إلى متى ترد عليه امرأته إذا أسلم بعدها ، ابو داود: 2240 ، ابن ماجة: 2009 ، ترمذي: 1143 ، احمد: 217/1 ، شيخ البانيؒ نے دو سال كے ذكر كے علاوه باقي حديث كو صحيح كها هے۔]
امام ابن قیمؒ رقمطراز ہیں کہ ان میں صحیح ترین قول یہ ہے کہ زینب رضی اللہ عنہا کی واپسی تین سال بعد پہلے نکاح پر ہوئی اور ابو العاص حدیبیہ سے پہلے مسلمان ہوئے ۔
[زاد المعاد: 14/4]
جس روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ابو العاص کے پاس جدید نکاح کے ساتھ واپس بھیجا ، وہ ضعیف ہے۔
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 436 ، كتاب النكاح: باب الزوجين يسلم أحدهما قبل الآخر ، إرواء الغليل: 1922 ، ابن ماجة: 2010 ، ترمذي: 1142 ، حاكم: 639/3 ، بيهقي: 188/7 ، أحمد: 207/2]
معلوم ہوا کہ اگرچہ مسلمان ہونے والی عورت کو عدت گزر جانے کے بعد کسی مسلمان کے ساتھ نیا نکاح کرنے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ نکاح نہ کرے اور اس کا پہلا شوہر مسلمان ہو جائے تو انہیں دوبارہ مل کر زندگی گزار نے کے لیے نئے نکاح کی ضرورت نہیں اور ایسی شرط لگانا بالکل خلافِ سنت ہے کہ اس کا خاوند دوران عدت ہی مسلمان ہوا ہو ورنہ نیا نکاح کریں۔
(ابن قیمؒ) احادیث میں تو کہیں عدت کا اعتبار مذکور نہیں اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاتون سے دریافت کیا کہ کیا اس کی عدت ختم ہو چکی ہے یا نہیں؟ ہمارے علم میں ایک بھی آدمی ایسا نہیں جس نے اسلام لانے کی وجہ سے لازما تجدید نکاح کیا ہو بلکہ دونوں معاملوں میں سے ایک کا واقع ہونا ضروری ہے۔ یا تو دونوں میں جدائی ہو گی اور اس خاتون کا دوسرے مرد سے نکاح ہو جائے گا۔ یا پھر دونوں کا (پہلا ) نکاح برقرار رہے گا خواہ عورت پہلے اسلام لائی ہو یا مرد۔ اور رہا جدائی کی تکمیل اور عدت کا لحاظ تو ہمیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے کسی ایک کی وجہ سے بھی فیصلہ فرمایا ہو حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بکثرت مرد اور ان کی بیویوں نے اسلام قبول کیا۔
[زاد المعاد: 137/5]
(شوکانیؒ ، امام ابن قیمؒ) کی یہ گفتگو متانت و حسن کی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔
[نيل الأوطار: 246/4]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1