متجددین کا طعنہ: اکابر پرستی
متجددین اور ان کے پیروکاروں کا ایک عمومی حربہ یہ ہے کہ وہ روایتی مذہبی افراد پر "اکابر پرستی” کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ یہ لوگ عقل کا استعمال کیے بغیر اپنے اکابرین کے خیالات کو اندھا دھند مانتے ہیں، اور قرآن مجید میں اس رویے کی مذمت کی گئی ہے۔ ان کے نزدیک، جو شخص اکابرین کے نظریات کو درست سمجھ کر ان پر عمل کرے، وہ گویا بے عقل اور تقلید پرست کہلاتا ہے۔
عقل کا غلط مفروضہ
یہ اعتراض اس مفروضے پر مبنی ہے کہ عقل کا استعمال کرنے کا لازمی مطلب اکابرین کے خیالات کو رد کرنا ہے۔ حالانکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی عقل استعمال کرکے اکابرین کے نتائج کو درست پائے تو اس میں غلطی کیا ہے؟ کیا عقل کا یہی اصول ہے کہ ہر کسی کو انہی نتائج پر پہنچنا چاہیے جہاں متجددین پہنچے؟
عقل کا تضاد
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ دوسروں پر اکابر پرستی کا الزام لگاتے ہیں، وہ خود اسی اصول پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک، عقل کا پیمانہ "میری عقل” ہے، اور جو اس سے مختلف سوچے، وہ بے عقل ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ رویہ بذات خود اکابر پرستی کے مترادف ہے، کیونکہ یہ متجددین بھی اپنی پسندیدہ آراء کو ترجیح دے کر لاکھوں لوگوں کی عقل کو رد کر رہے ہوتے ہیں۔
عقل کا بدلتا معیار
یہ بھی اہم نکتہ ہے کہ عقل کسی نہ کسی ریفرنس پوائنٹ سے جڑی ہوتی ہے، اور جب ریفرنس پوائنٹ بدل جائے تو نتائج بھی مختلف ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اپنی "جدیدیت زدہ” عقل پر فخر کرنے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ عقل کے نتائج محض ریفرنسز کے بدلنے سے تبدیل ہو سکتے ہیں۔
زمانے کی پیش رفت اور "پیچھے لے جانے” کا اعتراض
روایتی مذہبی فکر پر اعتراض
جب روایتی مذہبی افراد قرون اولیٰ کی بات کرتے ہیں تو جدید ذہن یہ اعتراض کرتا ہے کہ "مولوی ہمیں پیچھے لے جانا چاہتے ہیں، جبکہ زمانہ ہمیشہ آگے بڑھتا ہے۔” یہ دلیل پیش کرنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی مضبوط علمی اعتراض کر رہے ہیں، حالانکہ یہ دلیل نہایت کمزور اور غیر علمی ہے۔
زمانے کا مفروضہ
جدید ذہن اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ زمانہ کسی غیر مرئی قوت کے تحت آگے بڑھ رہا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ترقی اور پیش رفت ہمیشہ کسی مخصوص آئیڈیل کی طرف ہوتی ہے۔ موجودہ دور سرمایہ داری اور مادی ضروریات کے بڑھانے کی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، نہ کہ ہر پہلو میں ترقی کر رہا ہے۔
ترقی کے مختلف معیارات
یہ دعویٰ کہ جدید انسان ہر لحاظ سے ترقی یافتہ ہے، حقیقت کے برخلاف ہے۔ مثال کے طور پر، جدید دور میں اخلاقی زوال، جہالت، اور ظلم و بربریت نے مزید شدت اختیار کر لی ہے۔ ایسے میں یہ کہنا کہ زمانہ ہر پیمانے پر آگے بڑھ رہا ہے، سراسر غلط ہے۔
اقداری ترجیحات کا فرق
روایتی مذہبی ذہن جب قرون اولیٰ کی طرف مراجعت کی بات کرتا ہے تو وہ درحقیقت "رحمانی اقدار” کی طرف واپسی کی بات کرتا ہے۔ جبکہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام "شیطانی اقدار” کی طرف پیش رفت کو ترقی قرار دیتا ہے۔
جدید ذہن کی حقیقت
جدید ذہن نے ترقی کے پیمانوں کو مادی ضروریات اور سہولیات تک محدود کر دیا ہے، جیسے اونٹ کے بجائے گاڑی، خط کے بجائے موبائل وغیرہ۔ وہ انہی پیمانوں کی بنیاد پر ہر اس تصور کا مذاق اڑاتا ہے جو اس کی اقداری ترجیحات کے مطابق نہ ہو۔
مسلم مفکرین کی مایوس کن حالت
اجتہاد مطلق اور اسلام کی "مرمت”
جدیدیت کے آگے جھکنے والے بعض مسلم مفکرین اسلام کو موجودہ مادی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے "اجتہاد مطلق” کا نام دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ اسلاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جو درحقیقت اسلام کو سرمایہ دارانہ نظام میں ضم کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔