اولیاء کے نام پر ذبح اور دعا کرنا کیسا ہے
تحریر: علامہ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین حفظ اللہ

اولیاء کے نام پر ذبح کرنے اور ان سے دعا مانگنے کا حکم
سوال: اولیاء اور پیروں کے نام پر جانور ذبح کرنے اور ان سے دعائیں مانگنے کا کیا حکم ہے؟ مثلاً پیر بدوی وغیرہ سے مانگنا؟
جواب: غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا نا جائز ہے ۔ غیر اللہ مثلاً نبی ، ولی ، شہید ، سید یا ان کے علاوہ کسی سے بھی دعا مانگنا جائز نہیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لعن الله من ذبح لغير الله [صحيح مسلم كتاب الاضاحي ، باب تحريم الذبح لغير اللہ ولعن فاعله ، ح 1978]
”اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جو اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کے نام پر جانور ذبح کرے ۔ “
تو یہ ذبیحہ (جانور) ذبح کرنا سب کو شامل ہے ، خواہ کسی قبر ، مزار ، درخت ، پتھر ، نظر بد کے لیے ہو یا یہ جانور کسی خاص جگہ پر ذبح کیا جائے جس سے برکت حاصل کرنا مقصود ہو ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ان مقامات پر یا چیزوں کے نام پر جانور ذبح کرتے ہیں ان کا مقصد ان مقامات کو احترام و تعظیم دیتا ہے ۔ اور اس قسم کی تعظیم و تقدلیس صرف اللہ کی ذات کے لیے ہے لہٰذا یہ فعل حرام ہے اور وہ سارے جانور حرام ہو جاتے ہیں جو اللہ کے علاوہ دوسرے کے نام پر ذبح کیے جاتے ہیں ۔ اور اگر ذبح کرتے وقت اللہ عزوجل کا نام لیا جائے تب بھی یہ جائز قرار نہیں دیا جائے گا ، کیوں کہ اس ذبیحہ کا مقصد مخلوق کی تعظیم و تکریم کرنا مقصود ہوتا ہے لہٰذا اس جانور کا گوشت کھانا بھی حرام ہوگا ، جس طرح وہ جانور حرام ہیں جو بتوں یا پتھروں کے نام پر ذبح کیے جاتے ہیں ، خواہ ذبح کرتے وقت اللہ پاک کا نام لیا گیا ہو ۔ نیز اس میں وہ جانور بھی شامل ہے جس کو عیسی مسیح علیہ السلام یا کسی خاص ولی کے نام پر ذبح کیا جائے اس کا بھی کھانا شرعاًً حرام ہے ، خواہ وہ جانور بطور قربانی ہو یا بطور ہدیہ ۔ افضل ترین ذبیحہ وہ ہے جس کو اللہ رب العالمین کی قربت حاصل کرنے کے لیے ذبح کیا جائے ، جیسے قربانی یا منٰی کی قربانی ۔ پھر وہ جانور صحیح ہے جس کو بغرض گو شت ذبح کیا جائے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو ۔ البتہ وہ جانور جو صرف کسی مخلوق کی تعظیم و تکریم کے لیے ذبح کیا جائے یا ذبح کرتے وقت اس پر کسی مخلوق کا نام لیا جائے تو یہ حرکت سراسر حرام ہے اس جانور کا گوشت کھانا بھی حرام ہے ۔
بدوی مصری اور اس کے علاوہ دوسرے لوگ ، جیسے عبد القادر جیلانی ، ابن علوان ، حسین اور ان جیسے دوسرے اولیاء اور پیروں سے دعا مانگنا اور ان کو پکارنا ، نیز مصائب وشدائد پیش آنے کے وقت ان سے مدد طلب کرنا ، یہ شرک اکبر ہے ۔ اس لیے کہ سارے پیر و اولیاء خود مخلوق ہیں اور پالے گئے ہیں ۔ یہ لوگ تو خود اپنی ذات کے لیے نفع و نقصان کے مالک نہیں اور نہ موت و حیات ان کے ہاتھ میں ہے اور نہ خود اپنی مرضی سے دوبارہ اٹھیں گے تو پھر کیسے یہ اُن افراد د اشخاص کے مالک ہو سکتے ہیں جو ان سے دعا مانگتے ہیں ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا﴾ [الجن: 18]
”اور یہ کہ مسجد میں صرف اللہ ہی کے لیے خاص ہیں ، پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو ۔“
سو اس میں اولیاء انبیاء ، ملائکہ ، جن ، مردے اور ان جیسے دوسرے افراد سب ہی شامل ہیں جن کا عملی سلسلہ کٹ چکا ہو ۔ اور خود ان میں اپنے آپ کو نفع ، نقصان پہنچانے کی صلاحیت و قوت نہیں تو یہ لوگ کیسے ان لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں جو ان سے منت سماجت کرتے ہیں اور ان سے دعائیں مانگتے ہیں ، بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے لیے دعائے خیر کریں اور ہم اپنی نمازوں میں ان متقی و پرہیزگار لوگوں کے حق میں دعا کریں اور ہم ان کے اس سیرت و کردار کی اقتداء و پیروی کریں جس کے ذریعے وہ صالحین اور اولیاء اللہ میں سے ہو گئے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل