اولیاء کے تبرک سے متعلق سلف کا موقف اور چند شبہات کا ازلہ
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

اہل سنت والجماعت کا فہم

اہل سنت والجماعت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دین کے عقائد و اعمال کو قرآن و حدیث کی بنیاد پر اور صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین و ائمہ دین کے فہم کی روشنی میں سمجھتے اور اپناتے ہیں۔ ان کا یہ طریقہ کار سلف صالحین کے اتباع پر مبنی ہے۔ بہت سے عقائد و اعمال ایسے ہیں، جو سلف صالحین کے نزدیک کفر، شرک اور بدعت سمجھے جاتے ہیں، لیکن اہل کلام اور اہل بدعت کے نزدیک وہ دین کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اہل سنت کا دین قرآن و حدیث پر مبنی ہوتا ہے، جب کہ اہل بدعت اپنے خود ساختہ عقائد و اعمال کو پہلے وضع کرتے ہیں اور بعد میں قرآن و حدیث کی غلط تشریحات کے ذریعے اپنی بات ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح ان کے عقائد اور اعمال سلف صالحین کے فہم کے مطابق باطل قرار پاتے ہیں۔

سلف صالحین کا فہم اور بدعت کی پہچان

امامِ اندلس محمد بن وضاح رحمہ اللہ (286-199ھ) فرماتے ہیں:

"تم پر معروف ائمہ ہدیٰ کی پیروی ضروری ہے۔ بعض اسلاف نے کہا ہے کہ کتنے ہی معاملات آج لوگوں میں مشہور ہیں، لیکن اسلاف کے ہاں وہ منکر تھے، کتنے ہی امور آج محبوب ہیں، حالانکہ اسلاف کے نزدیک قابل نفرت تھے اور کتنے ہی معاملات آج تقربِ الٰہی کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں، جب کہ اسلاف کے ہاں وہ اللہ تعالیٰ سے دُوری کا سبب تھے۔ ہر بدعت خوبصورت اور خوش نما ہوتی ہے۔”
(البدع والنهي عنہا، ص: 89، تحت الحدیث: 107)

تین فضیلت والے زمانوں کے لوگ، یعنی صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین معیار ِحق ہیں۔ ان کے فہم و منہج کے مطابق قرآن و حدیث کی پیروی ضروری ہے۔ تبرک جیسے اہم مسئلے پر بھی ہم فہم سلف کی روشنی میں گفتگو کرتے ہیں۔

تبرک کی تعریف

تبرک کی تعریف کرتے ہوئے عالم عرب کے مشہور عالم، علامہ محمد بن صالح، عثیمین رحمہ اللہ (1421-1347ھ) فرماتے ہیں:

"تبرک کا مطلب ہے بھلائی کی کثرت اور اس کے دوام کو طلب کرنا۔ تبرک دو صورتوں میں ہو سکتا ہے: ایک شرعی طریقے سے، جیسے قرآن مجید سے برکت حاصل کرنا، اور دوسری حسی طور پر، جیسے علم و دعا سے برکت حاصل کرنا۔”
(القول المفید علی کتاب التوحید: 194/1، 195)

تبرک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ برکتوں کو طلب کیا جائے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ عمل شرعی احکام کے مطابق ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کو مبارک کتاب قرار دیا ہے اور اس سے برکت حاصل کرنا ایک شرعی عمل ہے۔ اسی طرح تعلیم، دعا اور علم سے بھی برکت حاصل کی جا سکتی ہے۔

شرعی اور غیر شرعی تبرک

تبرک کی دو اقسام ہیں:

◄ شرعی تبرک: جو قرآن و سنت سے ثابت ہو، جیسے قرآن کریم سے برکت حاصل کرنا۔

◄ غیر شرعی تبرک: جیسے وہم و گمان پر مبنی تبرکات، جو بعض لوگ مزعومہ بزرگوں یا قبروں سے وابستہ کرتے ہیں، یہ باطل ہیں اور ان کا کوئی شرعی ثبوت نہیں۔

شیخ صالح بن عبد العزیز بن محمد آل الشیخ فرماتے ہیں:

"اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ} (الصافات 37:113) یعنی ہم نے ابراہیم اور اسحاق پر برکت نازل کی، اور فرمایا: {وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا} (مریم 19:31) یعنی عیسیٰ علیہ السلام کو مبارک بنایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برکت دینے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ ہے اور کوئی مخلوق یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ وہ کسی کو برکت دے سکتی ہے۔”
(التمہید لشرح کتاب التوحید، ص: 127-124)

تبرک کا دائرہ کار

تبرک کا اصل مفہوم یہ ہے کہ نیک اعمال، علم اور دعا کے ذریعے اللہ کی برکتیں حاصل کی جائیں۔ جیسے قرآن کی تلاوت، علم دین حاصل کرنا، یا کسی نیک شخص کی دعا سے برکت حاصل کرنا۔ لیکن ایسی برکات جو شیطانی اثرات، قبروں، درختوں، یا غیر شرعی طریقوں سے وابستہ ہوں، وہ سراسر باطل ہیں۔

انبیاء کرام اور اولیاء کی برکت

انبیاء کرام کے اجسام میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی ہے، اور ان کے زمانے میں ان کے جسموں سے تبرک حاصل کیا جا سکتا تھا، جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں، وضو کے پانی اور لباس سے صحابہ کرام تبرک حاصل کرتے تھے۔ لیکن یہ برکت صرف انبیاء کرام کے ساتھ مخصوص ہے، اور کسی دوسرے انسان کے بارے میں ایسی بات ثابت نہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک میں اللہ نے برکت رکھی تھی، اور صحابہ کرام آپ کے وضو کے پانی، پسینے اور دیگر آثار سے برکت حاصل کرتے تھے۔ لیکن آپ کے بعد یہ برکت کسی اور کے لیے مخصوص نہیں ہوئی۔”
(مجموع الفتاویٰ: 115-113/11)

صحابہ کرام سے تبرک

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے برکت لینا مشروع ہے، لیکن صحابہ کرام جیسے سیدنا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے تبرک لینے کا کوئی شرعی ثبوت نہیں ملتا۔ یہ ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت ذاتی تھی، جو دوسروں تک منتقل ہو سکتی تھی، لیکن صحابہ کرام یا دیگر اولیاء کے بارے میں یہ تصور درست نہیں۔

مشرکین کا باطل تبرک

مشرکین کا تبرک وہم و گمان پر مبنی ہوتا ہے، جیسے قبروں، درختوں، یا پتھروں سے برکت حاصل کرنے کا عقیدہ۔ یہ شرکیہ اعمال ہیں اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔

آثار سے تبرک: خاصۂ نبوی

اہل سنت والجماعت کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک لینا ایک خاص خصوصیت ہے، جو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے ساتھ مخصوص ہے۔ کسی اور شخصیت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کر کے اس کے آثار سے تبرک کا جواز پیش کرنا درست نہیں، کیونکہ مخلوق میں کوئی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو نہیں پہنچ سکتا۔

اگر ولی یا کسی صالح شخص کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کرکے اس کے آثار سے تبرک لینا جائز ہوتا، تو صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ دین یہ کام ضرور کرتے، کیونکہ وہ دین کے اصولوں کو سب سے بہتر سمجھتے تھے۔

سلف صالحین کا عمل

علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م: 780ھ) اس بارے میں فرماتے ہیں:

"صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی کے آثار سے تبرک لینے کا سلسلہ نہیں چلایا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، لیکن ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا۔ نہ ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا ہوا۔”
(الاعتصام: 8/2، 9)

تابعین اور آثار سے تبرک

علامہ ابن رجب رحمہ اللہ (795-736ھ) لکھتے ہیں:

"صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک لیتے تھے، لیکن انہوں نے آپس میں ایسا نہیں کیا اور نہ ہی تابعین نے صحابہ کرام کے آثار سے تبرک لیا، حالانکہ ان کی قدر و منزلت بہت بلند تھی۔”
(الحکم الجدیدۃ بالإذاعۃ من قول النبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بعثت بالسیف بین یدي الساعۃ، ص: 55)

آثار سے تبرک کا جواز: سلف صالحین کا طرزِ عمل

علامہ عبد الرحمن بن حسن رحمہ اللہ (1285-1193ھ) فرماتے ہیں:

"بعض متاخرین صالحین کے آثار سے تبرک لینے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن یہ کئی وجوہات کی بنا پر ممنوع ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کے آثار سے تبرک نہیں لیتے تھے، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور نہ وفات کے بعد۔ اگر یہ نیکی کا کام ہوتا تو سلف صالحین پہلے اس کام کو انجام دے چکے ہوتے۔”
(فتح المجید شرح کتاب التوحید، ص: 142)

امت میں کسی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کرنا

نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ (1307-1248ھ) فرماتے ہیں:

"امت میں کسی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کرنا جائز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے خصائص حاصل تھے، جن میں کوئی اور شریک نہیں ہو سکتا۔”
(الدین الخالص: 250/2)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک لینا

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ (1420-1330ھ) فرماتے ہیں:

"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں، پسینے اور وضو کے پانی سے تبرک لینا جائز ہے، کیونکہ صحابہ کرام نے ایسا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس عمل پر رضامندی ظاہر فرمائی۔ یہ برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اور اس کی مثال وہ برکت ہے جو آبِ زمزم میں رکھی گئی ہے۔”
(مجموع فتاوی ابن باز: 121/9)

شیخ عبد العزیز بن باز مزید فرماتے ہیں:

"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار میں خاص برکت رکھی گئی تھی، لیکن کسی اور کے لیے اس قسم کی برکت ثابت نہیں۔ صحابہ کرام نے سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان یا علی رضی اللہ عنہم کے آثار سے تبرک نہیں لیا، حالانکہ یہ ہستیاں انبیاء کے بعد سب سے افضل تھیں۔ یہ عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، اور کسی اور پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔”
(مجموع فتاوی ابن باز: 285/28، 286)

حجر اسود اور آثار صالحین سے تبرک: شرعی حیثیت

ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کا کہنا ہے کہ جیسے مناسک حج کے دوران حجر اسود، رکن یمانی اور مقامِ ابراہیم سے برکت حاصل کی جاتی ہے اور اسے شرک نہیں سمجھا جاتا، اسی طرح کسی پیغمبر یا ولی سے تبرک یا واسطہ طلب کرنا شرک کیسے ہو سکتا ہے؟ ان کا موقف ہے کہ اگر ایک پتھر کے ذریعے تبرک جائز ہے تو انبیا اور اولیا کو تبرک کا وسیلہ بنانا بھی جائز ہونا چاہیے، اور اسے شرک قرار دینا دین کے حقیقی تصور کے خلاف ہے۔
(تبرک کی شرعی حیثیت، ص: 19)

تبرک کا شرعی مقام

اسلامی تعلیمات میں تبرک کی جائز اور ممنوع صورتوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ حجر اسود کو بوسہ دینا، رکن یمانی کو چھونا اور مقامِ ابراہیم پر نماز پڑھنا قرآن و سنت کی پیروی میں کیا جاتا ہے، اور اس کا ایک خاص وقت اور مقام مقرر ہے۔ طواف کے علاوہ ان افعال کا انجام دینا جائز نہیں کیونکہ یہ عبادت کے اعمال ہیں، اور عبادت کا تعین صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کر سکتے ہیں۔

یہ کہنا کہ حجراسود کو بوسہ دینے اور رکن یمانی کو چھونے کا مقصد تبرک حاصل کرنا ہے، ایک غلط فہمی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجراسود کو بوسہ دیتے ہوئے واضح طور پر فرمایا:

"بیشک میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا، تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔”
(صحیح بخاری: 1597، صحیح مسلم: 1270)

صحابہ اور تابعین کا عمل

سلف صالحین، یعنی صحابہ کرام اور تابعین، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک لیتے تھے، لیکن دیگر افراد کے آثار سے تبرک لینا ثابت نہیں ہے۔ صحابہ اور تابعین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک لیا، لیکن اسلاف میں سے کسی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے آثار سے تبرک نہیں لیا۔

علامہ طبری رحمہ اللہ کا قول

علامہ محب الدین طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات اس لیے کہی کہ لوگ نئے نئے بت پرستی سے ہٹ کر اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ ان کو خدشہ تھا کہ کہیں جاہل لوگ یہ نہ سمجھیں کہ حجر اسود کو چومنا بتوں کی عبادت کی طرح ہے، لہٰذا انہوں نے وضاحت کی کہ اس کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پیروی ہے، نہ کہ کوئی بت پرستی کی مانند عمل۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری للعینی: 240/9)

ملا علی قاری رحمہ اللہ کا بیان

ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان حجر اسود کو چومنے کے تعبدی (عبادت کے لیے جاری) حکم کی طرف اشارہ ہے۔ ہم اسے انجام دیتے ہیں، لیکن اس کی علت کے بارے میں سوال نہیں کرتے۔
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: 213/3)

تبرک کا مفہوم اور توحید کی حفاظت

شیخ شمس الدین سلفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حجر اسود کو چومنا اور اس سے تبرک لینا ایک تعبدی عمل ہے، جس کا مقصد صرف اللہ کی عبادت ہے، نہ کہ تبرک حاصل کرنا۔ قبروں، درختوں، یا کسی اور جگہ سے تبرک لینا شرعی لحاظ سے جائز نہیں ہے، کیونکہ اس سے شرک میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ صحابہ کرام توحید کی حفاظت اور شرک کے اسباب کو ختم کرنے کا بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے۔
(جہود علماء الحنفیۃ في إبطال عقائد القبوریۃ: 658-656/2)

شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کا قول

شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حجر اسود کو چومنا یا اس سے تبرک لینا جائز نہیں ہے۔ اسے چومنے کا مقصد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اللہ کی عبادت ہے، نہ کہ تبرک حاصل کرنا۔
(القول المفید علی کتاب التوحید: 196/1)

دیگر اشیا کو بوسہ دینے کی شرعی حیثیت

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان کہ "حجر اسود ایک پتھر ہے، نہ نفع دیتا ہے نہ نقصان”، اس بات کی دلیل ہے کہ صرف وہی چیز بوسے کے لائق ہے جس کے لیے شریعت نے واضح اجازت دی ہو۔ ان اشیا کو بوسہ دینا جن کے بارے میں شریعت میں کوئی دلیل موجود نہیں، ناجائز اور بدعت تصور کیا جائے گا۔

شارح صحیح بخاری، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (852-771ھ) فرماتے ہیں:

"ہمارے شیخ ابو الفضل بن الحسین جامع ترمذی کی شرح میں فرماتے ہیں: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ جس چیز کو چومنے کے بارے میں شریعت میں کوئی دلیل نہ ہو، اسے چومنا مکروہ ہے۔”
(فتح الباری فی شرح صحیح بخاری: 463/3)

ایک جھوٹی روایت کا تذکرہ

ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"بیشک میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ نفع دیتا ہے نہ نقصان۔”

تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب میں کہا:

"کیوں نہیں، امیر المومنین! یہ نفع اور نقصان دیتا ہے۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 457/1، اخبار مکّہ للازرقی: 323/1، شعب الایمان للبیہقی: 3749)

یہ روایت جھوٹی ہے اور اس کے گھڑنے والے ابو ہارون عبدی نامی راوی کو محدثین نے "متروک” اور "کذاب” قرار دیا ہے۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اکثر محدثین نے اسے ضعیف یا متروک قرار دیا ہے۔”
(میزان الاعتدال: 173/3)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"یہ روایت محدثین کے ہاں ضعیف قرار دی گئی ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر: 21/3)

سنگ اسود اور نفع و نقصان

لہذا احمد یار خاں نعیمی گجراتی صاحب کا یہ کہنا کہ "سنگ اسود نفع و نقصان پہنچانے والا ہے” بے دلیل اور باطل ہے۔
(جاء الحق: 375/1)

رُکنِ یمانی سے تبرک

دورانِ طواف، رکن یمانی کو چھونا (استلام) سنت ہے، مگر اسے بوسہ دینا جائز نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حجر اسود کو بوسہ دیا ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کعبۃ اللہ کا طواف کیا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کعبۃ اللہ کے چاروں کونوں کو چھوتے تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا:

"آپ ان (دو شامی) کونوں کو کیوں چھوتے ہیں، جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نہیں چھوتے تھے؟” سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:”بیت اللہ کی کوئی چیز بھی چھوڑنے کے لائق نہیں۔” اس پر سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ} (الأحزاب 33:21) "تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بہترین نمونہ ہے۔”

یہ سن کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا:

"آپ نے بالکل سچ کہا ہے۔”
(مسند الإمام أحمد: 217/1، شرح معاني الآثار للطحاوي: 184/2، وسندہ حسن)

راوی خصیف بن عبد الرحمن کی وثاقت

جمہور محدثین کے نزدیک خصیف بن عبد الرحمن "موثق” اور "حسن الحدیث” ہیں۔

حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ) فرماتے ہیں:

"امام بیہقی کا خصیف کو غیر قوی کہنا غلط ہے، کیونکہ بہت سے حفاظ اور ائمہ متقدمین نے اس کی مخالفت کی ہے۔”
(المجموع شرح المهذب: 216/7)

علماء کا اتفاق

علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ چھونا اور چومنا صرف حجر اسود کے ساتھ خاص ہے۔ علامہ محمد بن بیر علی برکوی رحمہ اللہ (981-929ھ) فرماتے ہیں:

"علماء کا اتفاق ہے کہ چھونا اور چومنا صرف حجر اسود کے ساتھ خاص ہے، اور رکن یمانی کو صرف چھوا جائے گا، نہ کہ چوما جائے گا۔”
(زیارة القبور، ص: 52)

رکن یمانی کو تبرک کا ذریعہ بنانا

علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ (1421-1347ھ) فرماتے ہیں:

"افسوس کہ بعض لوگوں نے عبادات کو تبرک کی ایک قسم بنا لیا ہے، جیسے دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ رکن یمانی کو چھوتے ہیں اور پھر بچوں کے چہرے اور سینے پر ہاتھ پھیرتے ہیں۔ یہ جہالت ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا تھا کہ ‘یہ ایک پتھر ہے، نہ نفع دیتا ہے نہ نقصان۔'”
(القول المفید علی کتاب التوحید: 181/1)

مقامِ ابراہیم سے تبرک

طوافِ کعبہ کے بعد مقامِ ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کرنا سنت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلًّی} (البقرۃ 2: 125)
’’اور مقامِ ابراہیم کو جائے نماز بناؤ۔‘‘

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت

اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے:

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد، مقامِ ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں ادا کرتے تھے۔‘‘
(صحیح البخاری: 1627)

مقامِ ابراہیم پر نماز کی حکمت

مقامِ ابراہیم پر نماز ادا کرنے کی اصل حکمت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ تاہم بعض لوگوں نے اس معاملے میں غلط فہمیاں پیدا کی ہیں۔

غلو اور غلط فہمیاں

مثلاً، ایک بریلوی عالم احمد یار خان نعیمی نے لکھا کہ:

’’مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کھڑے ہو کر کعبہ کی تعمیر کی، اور ان کے قدم پاک کی برکت سے یہ پتھر قابل تعظیم بن گیا، کہ حاجی اس کی طرف سر جھکاتے ہیں۔‘‘
(جاء الحق: 373/1، فتاویٰ رضویہ: 398/21)

یہ بیان غلو پر مبنی ہے کیونکہ صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ دین سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہوئی کہ مقامِ ابراہیم کو تبرک کی نیت سے چھونا یا بوسہ دینا جائز ہو۔ بلکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت واضح فرمایا تھا کہ اس میں کوئی ذاتی برکت نہیں۔

سلف صالحین کا موقف

سلف صالحین کے مطابق مقامِ ابراہیم کو چھونا اور بوسہ دینا بدعت ہے:

حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ) فرماتے ہیں:

’’مقامِ ابراہیم کو نہ چھونا چاہیے، نہ چومنا، کیونکہ یہ بدعت ہے۔‘‘
(الإیضاح في مناسک الحجّ والعمرۃ، ص: 392)

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751-691ھ) فرماتے ہیں:

’’سلف صالحین نے مقامِ ابراہیم کے پتھر کو بوسہ دینے کی مخالفت کی ہے۔‘‘
(إغاثۃ اللہفان: 212/1)

علامہ محمد بن بیر علی برکوی رحمہ اللہ (981-929ھ) بھی یہی بات لکھتے ہیں:

’’سلف صالحین نے مقامِ ابراہیم کے پتھر کو بوسہ دینے کی مخالفت کی ہے۔‘‘
(زیارۃ القبور، ص: 52)

بدعت کا دروازہ کھولنا

بعض لوگ مقامِ ابراہیم یا دیگر مقامات کو تبرک کا ذریعہ بنا کر انبیاء و اولیاء کی قبروں پر عبادت کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ جہاں انبیاء یا اولیاء نے قدم رکھا، وہ جگہ برکت والی ہو جاتی ہے، اور وہاں عبادت کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ بت پرستی کی ابتدا بھی تھی، جب لوگوں نے بزرگوں کی قبروں یا تصاویر کو تعظیم و تبرک کا ذریعہ بنایا، جو بعد میں قبرپرستی اور شرک کی شکل اختیار کر گیا۔

سیدہ مریم کے حجرہ سے تبرک

ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے سیدہ مریم علیہا السلام کے حجرہ سے حضرت زکریا علیہ السلام کے تبرک کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام نے سیدہ مریم کے حجرے میں بے موسم پھل دیکھے، تو اسی جگہ کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے اولاد کے لیے دعا کی، اور انہوں نے اس کو تبرک اور تیمن کا ایک عمل قرار دیا۔

آیت مبارکہ سے استدلال

انہوں نے آیت مبارکہ {ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ} (آل عمران: 38) سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کا اس جگہ پر کھڑے ہو کر دعا کرنا، تبرک کی نیت سے تھا اور یہ عمل شرک نہیں تھا، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا قرآن میں ذکر نہ فرماتے۔

قادری صاحب کے دعوے کی حقیقت

قادری صاحب کا یہ دعویٰ کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے سیدہ مریم علیہا السلام کے حجرے کو متبرک جانا اور وہیں دعا کی، متقدمین مفسرین اور محدثین کے فہم کے مطابق نہیں ہے۔ سلف صالحین کے مطابق، سیدنا زکریا علیہ السلام کی دعا اس وقت کی گئی جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کیا، نہ کہ کسی جگہ کو تبرک جانتے ہوئے۔

صحیح تفسیر

تابعی اور محدث عبدالرحمن سدی کبیر (م: 127ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’جب سیدنا زکریا علیہ السلام نے گرمی میں سردیوں کے اور سردیوں میں گرمیوں کے پھل دیکھے تو کہنے لگے: جس رب نے بغیر موسم کے مریم کو یہ عطا فرمایا ہے، وہ مجھے بھی اولاد دے سکتا ہے۔ چنانچہ، وہ کھڑے ہوئے، نماز پڑھی، اور اپنے رب سے دعا کی۔‘‘
(تفسیر الطبری: 189-188/3)

امام طبری رحمہ اللہ کا بیان

امام طبری رحمہ اللہ (310-224ھ) فرماتے ہیں:

’’سیدنا زکریا علیہ السلام نے سیدہ مریم کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا رزق اور فضل دیکھا، جو انہیں بغیر کسی وسیلے کے ملا تھا، تو انہیں اولاد کی خواہش پیدا ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین رکھتے ہوئے دعا کی۔‘‘
(تفسیر الطبری: 189-188/3)

سلف صالحین کی روشنی میں فہم

مفسرین کے مطابق، سیدنا زکریا علیہ السلام نے اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کرتے ہوئے اپنی حاجت پیش کی۔ یہ دعا اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، چاہے وہ دنیاوی دستور کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اس واقعے کو کسی جگہ کی تبرک کی نیت سے دعا کرنے کے جواز کے طور پر پیش کرنا درست نہیں۔

سیدنا موسٰی و ہارون علیہما السلام کے آثار سے تبرک

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تابوت سکینہ کا ذکر کیا ہے، جس میں بنی اسرائیل کے لیے تسلی اور ان کے پیغمبروں کے آثار تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{وَقَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ اِنَّ آیَۃَ مُلْکِہٖ أَنْ یَّأْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِیہِ سَکِیْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ آلُ مُوْسٰی وَآلُ ھَارُوْنَ تَحْمِلُہُ الْمَلٰئِکَۃُ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَآیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ}
(البقرۃ: 248)

یہ آیت بتاتی ہے کہ تابوت سکینہ ایک عظیم نشانی تھی، جسے فرشتے اٹھا کر لائے تھے اور اس میں سکون اور کچھ باقیات تھیں، جو سیدنا موسٰی اور سیدنا ہارون علیہما السلام سے منسوب تھیں۔

حقیقت میں کیا تھا؟

اللہ تعالیٰ نے تابوت سکینہ میں موجود اشیاء کی تفصیل سے آگاہ نہیں کیا۔ قرآن و حدیث میں اس بارے میں مزید وضاحت نہیں کی گئی ہے، کیونکہ اگر اس کی تفصیل میں کوئی خاص حکمت ہوتی تو اللہ تعالیٰ ہمیں ضرور اس سے آگاہ فرماتے۔

مختلف تفاسیر میں مذکور

احمد یار خان نعیمی بریلوی نے مختلف تفاسیر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ تابوت میں انبیاء کی تصاویر، حضرت موسٰی علیہ السلام کا عصا، کپڑے، اور دیگر اشیاء تھیں، اور بنی اسرائیل ان چیزوں کو تبرک کے طور پر جنگوں میں ساتھ رکھتے اور دعا کرتے وقت اس سے برکت لیتے تھے۔
(’’جاء الحق‘‘ : 370/1)

لیکن ان روایات کا کوئی معتبر شرعی ثبوت نہیں ہے، اور اس سلسلے میں بیان کردہ معلومات زیادہ تر وہب بن منبہ جیسے روایات پر مبنی ہیں، جو خود غیر معتبر شمار کیے جاتے ہیں۔

ضعیف روایات کا انکشاف

تاریخی روایات میں ذکر کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل تابوت کو جنگوں میں لے جاتے تھے اور اسے برکت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ لیکن یہ روایات مستند نہیں ہیں، کیونکہ ان میں شامل راوی محمد بن حمید رازی کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔

دیگر تفاسیر

اشرف علی تھانوی دیوبندی عالم نے بھی اپنی تفسیر میں لکھا کہ اس آیت میں آثار صالحین سے تبرک لینے کی اصل موجود ہے۔
(بیان القرآن : 145)

لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں سیدنا موسٰی اور ہارون علیہما السلام کے آثار کا ذکر ہے، اور یہ صرف انبیاء کے آثار تک محدود تھا۔ صالحین اور اولیاء کے آثار سے تبرک کا کوئی ثبوت خیرالقرون (صحابہ و تابعین) کے دور میں نہیں ملتا۔

قمیص یوسف علیہ السلام سے تبرک

ایک اور مثال سیدنا یوسف علیہ السلام کی ہے، جب انہوں نے اپنی قمیص اپنے والد سیدنا یعقوب علیہ السلام کو بھیجی تاکہ وہ بینائی حاصل کر سکیں۔ قرآن میں ذکر ہے:

{اِذْھَبُوْا بِقَمِیْصِیْ ھٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰی وَجْہِ أَبِیْ یَأْتِ بَصِیْرًا}
(یوسف: 93)

اس واقعہ کو بھی تبرک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ ایک معجزہ تھا، جو اللہ تعالیٰ کے حکم پر وقوع پذیر ہوا۔ اگر یہ تبرک تھا بھی، تو یہ صرف انبیاء کے ساتھ خاص ہے، اور اسے امت کے عام افراد پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔

سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے کنویں سے تبرک

ایک روایت کے مطابق سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جماعت کے ساتھ ’’حجر‘‘ کی سرزمین میں قیام فرما ہوئے، تو وہاں موجود کنوؤں سے پانی نکالا گیا اور اس سے آٹا گوندھا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پانی کو پھینک دینے اور آٹا اونٹوں کو کھلانے کا حکم دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اس کنویں سے پانی لیں، جہاں سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی۔

(صحیح البخاري: 3379، صحیح مسلم: 2981)

کیا اس سے تبرک ثابت ہوتا ہے؟

بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے پانی پینے سے وہ کنواں متبرک ہو گیا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے تبرک لینے کا حکم دیا۔ لیکن یہ تصور درست نہیں ہے۔

معاملے کی وضاحت

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ خود ہی متبرک تھی اور ان کے ہوتے ہوئے کسی اور نبی کے آثار سے تبرک لینا غیر مناسب ہوتا، چہ جائیکہ کسی اور نبی کی اونٹنی کے کنویں کے پانی سے تبرک حاصل کیا جائے۔ اس حدیث کا اصل مقصد صحت سے متعلق تھا، کیونکہ جس وادی پر عذاب الٰہی آیا تھا، اس کے پانی کا استعمال نقصان دہ ہو سکتا تھا۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کنویں کے پانی سے منع کیا، جہاں قوم ثمود پر عذاب نازل ہوا تھا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی وضاحت میں فرمایا کہ قوم ثمود کے کنووں سے پانی پینا مکروہ ہے، کیونکہ وہ کنویں اور چشمے ان لوگوں سے منسوب ہیں، جو اپنے کفر کی وجہ سے اللہ کے عذاب کا شکار ہوئے۔
(فتح الباری: 380/6)

تبرک کا غلط استدلال

بعض علماء جیسے علامہ نووی اور علامہ قرطبی نے اس حدیث سے آثار صالحین سے تبرک لینے کا استدلال کیا، جو درست نہیں ہے۔ اس معاملے کا تعلق تبرک سے نہیں، بلکہ اس کنویں سے پانی لینے کی اجازت کا مقصد صرف صحت اور حفظان صحت تھا، نہ کہ تبرک۔

حیات ِمبارکہ کے ساتھ خاص تبرک

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے جسد مبارک، دست مبارک، پسینہ، اور دیگر اشیاء سے تبرک لینا جائز تھا، لیکن وفات کے بعد یہ عمل ختم ہو گیا۔ بعد از وفات تبرک کی دو صورتیں ہیں:

ایمان لانا اور اطاعت کرنا

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت اور اتباع سے دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرنا سب سے بڑی برکت ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت ایمان اور اطاعت کے ذریعے ہر مومن کو ملتی ہے، اور یہ دنیا و آخرت کی بھلائیوں کا ذریعہ ہے۔
(مجموع الفتاوی: 113/11)

آثار مبارکہ سے تبرک

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے باقی رہ جانے والے آثار، جیسے عصا مبارک، بال مبارک، یا جبہ مبارک سے تبرک لیا جا سکتا تھا، لیکن یہ تبرک بھی آپ کی وفات کے بعد مخصوص آثار تک محدود ہے۔

تبرک کی اقسام

تبرک کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

تبرک مشروع (جائز تبرک)

یہ وہ تبرک ہے، جس کا جواز شریعت سے ثابت ہے، جیسے صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار مبارکہ سے تبرک لیتے تھے۔

تبرک ممنوع (ناجائز تبرک)

یہ وہ تبرک ہے، جو شرعی دلائل سے ثابت نہیں۔ اس میں شامل ہے:

◄ شرکی تبرک: جس میں کسی غیر اللہ کو مافوق الاسباب برکت دینے والا سمجھا جائے، جیسے قبروں یا مزاروں سے برکت حاصل کرنا۔

◄ بدعی تبرک: وہ تبرک جو غیر شرعی عمل پر مبنی ہو، جیسے غیر اللہ کی عبادت یا ان کے آثار سے برکت کی امید رکھنا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ درخت، پتھر اور چشموں سے تبرک لینا بدعت ہے اور یہ شرک کی طرف لے جاتا ہے۔
(مجموع الفتاوی: 136/27)

ممنوع تبرک اور شرک

تبرک کے مسئلے میں ممنوع تبرک کو شرک کے دائرے میں شامل کرنے کی ایک اہم دلیل سیدنا ابو واقد حارث بن عوف لیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کی فتح کے بعد ہوازن کی طرف رخ کیا۔ راستے میں کفار کی ایک بیری کے درخت کے پاس سے گزرے، جس کے اردگرد وہ لوگ قیام کرتے اور اسے ذات انواط کہتے تھے۔ صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: "یا رسول اللہ! ہمارے لیے بھی ان کی طرح ایک ذات انواط مقرر کر دیجیے۔” نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:

"اللہ اکبر! یہ وہی راستہ ہے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ ہمارے لیے بھی ایک الٰہ مقرر کر دیجیے جیسے ان کے الٰہ ہیں۔ بلاشبہ تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے نقش قدم پر چلو گے۔”
(مسند احمد: 21897، سنن الترمذی: 2180، سند صحیح)

شرک کے نمونے

علامہ طرطوشی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اگر کہیں ایسا درخت نظر آئے جسے لوگ تعظیم کے لیے جاتے ہوں اور اس سے شفا یابی یا برکت کی امید رکھتے ہوں، یا اس پر کپڑے وغیرہ لٹکاتے ہوں، تو وہ بھی ذات انواط کی طرح ہے اور اسے کاٹ دینا چاہیے۔

(الحوادث والبدع، ص: 39)

بدعات اور شرک کی علامات

علامہ ابو شامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ شیطان لوگوں کو فریب دے کر مختلف مقامات پر تعمیرات کی طرف مائل کرتا ہے، اور لوگ ان جگہوں پر دعا اور تبرک کے لیے جاتے ہیں۔ وہ ان مقامات کی تعظیم کرتے ہیں اور ان سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ یہ سب جاہلیت کی بدعات اور شرک کا حصہ ہے۔

(الباعث علٰی إنکار البدع والحوادث، ص: 25-26)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رد

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محض کافروں کے ساتھ مشابہت کو بھی سختی سے رد کیا۔ اسی طرح ایسے اعمال جو مشرکین سے مشابہت رکھتے ہیں یا بعینہٖ شرک کی شکل ہیں، وہ قطعاً جائز نہیں۔

(اقتضاء الصراط المستقیم، 158/2)

صحابہ کا مطالبہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رد

علامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نے درخت سے تبرک حاصل کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جو مشرکین کی پیروی کا ایک عمل تھا۔ اس مطالبے میں توحید کی نفی موجود تھی، کیونکہ درخت سے تبرک لینا شرک کی ایک قسم ہے۔

(القول المفید علی کتاب التوحید، 205/1)

تبرکِ بدعی: ایک تفصیلی جائزہ

اسلام میں تبرک کے تصور کو بعض مخصوص حدود و قیود کے ساتھ قبول کیا گیا ہے، جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور ان کے آثار کے ساتھ مخصوص تھا۔ لیکن جب یہ عمل غیر شرعی ذرائع اور مقامات تک بڑھا دیا جاتا ہے، تو اسے تبرکِ بدعی کہا جاتا ہے، یعنی بدعت پر مبنی تبرک۔

غیر مشروع تبرکات

آثارِ صالحین اور قبورِ صالحین سے تبرک حاصل کرنے کا عمل بدعت ہے، کیونکہ شریعت میں اس کی کوئی ٹھوس بنیاد موجود نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے دوران ان کے جسمِ مبارک اور ذاتی اشیاء سے تبرک حاصل کرنا مشروع تھا، لیکن ان کے بعد کسی اور کے ساتھ ایسا عمل ثابت نہیں۔ اسلافِ امت اور صحابہ کرام سے ایسا کوئی عمل منقول نہیں جو صالحین کی قبور، آثار یا اشیاء سے تبرک لینے کو جائز قرار دیتا ہو۔

بدعتی اعمال کی مثالیں

◄ مقامِ ابراہیم کو بوسہ دینا: اس مقام کو بطور تبرک چومنا شریعت سے ثابت نہیں۔

◄ کعبۃ اللہ کی دیواروں کو چومنا: کعبہ کی دیواروں کو چومنا بھی غیر مشروع ہے، سوائے حجرِ اسود کے، جس کا بوسہ لینا سنت ہے۔

◄ غلافِ کعبہ اور دیگر اشیاء کو تبرک کے طور پر استعمال کرنا: غلافِ کعبہ کو چھونا اور پکڑنا، یا اس سے تبرک لینا شریعت میں جائز نہیں ہے۔

◄ صالحین کے مقامات کو متبرک سمجھنا: انبیاء یا اولیاء کی پیدائش یا وفات کی جگہوں سے تبرک حاصل کرنا بھی غیر شرعی ہے۔

◄ شب برات، شب معراج یا شب میلاد کو مخصوص عبادات کے ساتھ تبرک سمجھنا: یہ عمل بھی بدعت ہے، کیونکہ ان راتوں کو کسی مخصوص عبادت یا تبرک کے طور پر منانا ثابت نہیں۔

امام احمد رضا خان بریلوی کے نظریات

امام احمد رضا خان بریلوی نے بعض اوقات تبرک کے لیے غیر شرعی نظریات کو فروغ دیا، جیسے کربلا کی قبروں کی شبیہیں بنا کر ان سے تبرک حاصل کرنے کی اجازت دینا۔ ان کے فتاویٰ میں واضح طور پر ایسی مثالیں موجود ہیں جو بدعت کے زمرے میں آتی ہیں۔

شیخ سلیمان بن عبد اللہ رحمہ اللہ کا مؤقف

شیخ سلیمان بن عبد اللہ رحمہ اللہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نیک لوگوں کے آثار سے تبرک لینا غلط ہے، کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کے ساتھ خاص تھا۔ نیک لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجے تک نہیں پہنچ سکتے، اور اس لیے ان کے آثار سے تبرک لینا غیر شرعی ہے۔

تبرک کا صحیح تصور

تبرک صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور ان کے مخصوص آثار تک محدود تھا۔ صحابہ کرام نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کے آثار سے تبرک حاصل نہیں کیا۔ یہی سلف صالحین اور تابعین کا طرزِ عمل تھا۔

بدعتی تبرک کی مذمت

بعض متاخرین علماء نے صالحین کے آثار اور قبروں سے تبرک حاصل کرنے کو مستحب سمجھا ہے، لیکن یہ نظریہ سلف صالحین اور صحابہ کرام کے طرزِ عمل کے خلاف ہے۔ ان اعمال کو فروغ دینا بدعت ہے اور دین میں اضافہ کے مترادف ہے۔

تبرکِ بدعی اور شرعی دلیل کا جائزہ

غلافِ کعبہ کے چومنے پر شرعی دلیل: غلافِ کعبہ یا کعبہ کی دیواروں کو چومنے کا عمل شریعت میں کسی بھی مستند حدیث یا قرآنی حکم سے ثابت نہیں ہے۔ سوائے حجرِ اسود کے، جسے چومنے کی سنت ثابت ہے، کعبہ کی دیواریں، غلاف یا دیگر اجزاء کو چومنا کسی صحابی یا تابعی سے منقول نہیں ہے۔ امام عینی حنفی لکھتے ہیں:
"جن پتھروں یا اشیاء کا چومنا شریعت میں وارد نہیں ہوا، ان کو چومنا مکروہ ہے”
【عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، 9/241】
لہٰذا غلافِ کعبہ کا چومنا بدعتی تبرک کے زمرے میں آتا ہے۔

گنگوہی صاحب اور بدعی تبرکات

رشید احمد گنگوہی صاحب کے حوالے سے جناب محمد عاشق الٰہی میرٹھی نے تبرکات کے مختلف واقعات بیان کیے ہیں، جن میں مدنی کھجوروں کی گٹھلیاں اور حرمین شریفین کے آثار کو بطور تبرک استعمال کیا گیا۔ یہ سب بدعت کی اقسام میں شمار ہوتے ہیں، کیونکہ شریعت میں اس قسم کے اعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

بدعتی اعمال کی مثالیں

◄ مدنی کھجوروں کی گٹھلیاں بطور تبرک تقسیم کرنا۔
◄ روضۂ رسول سے غبار اور مسجد نبوی کے درختوں کی کھجوریں تقسیم کرنا۔
◄ مقامِ ابراہیم کا ٹکڑا رکھ کر پانی میں ڈال کر اسے تقسیم کرنا۔

یہ تمام اعمال سلف صالحین یا صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہیں اور غیر مشروع اعمال کی اقسام میں شمار ہوتے ہیں۔

بدعت کی مذمت

بدعتی تبرکات کو فروغ دینا شریعت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ شیخ سلیمان بن عبد اللہ بن محمد نے واضح کیا ہے کہ نیک لوگوں کے آثار سے تبرک لینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ خاص تھا، اور یہ عمل کسی اور کے لیے مشروع نہیں ہے
【تیسیر العزیز الحمید، ص: 150، 151】۔

اندھی عقیدت اور غلو

رشید احمد گنگوہی صاحب اور دیگر بزرگان کے حوالے سے مختلف بدعتی اعمال کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں مدنی کھجوروں، حجرہ مطہرہ کے غلاف، اور تبرکات کی تقسیم شامل ہے۔ یہ اعمال اسلامی شریعت کے اصولوں کے برخلاف ہیں اور دین میں اضافہ شمار ہوتے ہیں۔

پاخانے سے تبرک

مولوی محمد الیاس صاحب کی نانی کے حوالے سے جو واقعات ذکر کیے گئے ہیں، ان میں پاخانے والے پوتڑوں کو بطور تبرک استعمال کرنا ایک انتہائی بدعتی اور غیر شرعی عمل ہے۔ شریعت میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جو اس قسم کی حرکات کو جائز قرار دے۔

مضمون کا خلاصہ: تبرک اور بدعت

اس مضمون میں واضح کیا گیا ہے کہ صالحین اور اولیاء کرام کے آثار سے تبرک لینا بدعت شمار کیا جاتا ہے۔ تبرک کا یہ تصور صرف اور صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ قرآن و حدیث میں ان کے آثار سے برکت حاصل کرنے کے دلائل موجود ہیں۔ لیکن دیگر صالحین اور اولیاء کے آثار یا قبور سے برکت حاصل کرنے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، اور یہ عمل بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔ صحابہ کرام، تابعین، اور سلف صالحین میں سے کسی نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور سے تبرک حاصل نہیں کیا، نہ ان کی زندگی میں اور نہ ہی ان کی وفات کے بعد۔

لہٰذا، دین میں ان بدعات کی کوئی گنجائش نہیں، اور صالحین یا دیگر افراد کے آثار سے برکت حاصل کرنا بدعت اور غیر مشروع عمل ہے، جس کی اسلام میں کوئی بنیاد نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!