الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: [ ص: 495] { أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى . عَنْ الْمُنَابَذَةِ – وَهِيَ طَرْحُ الرَّجُلِ ثَوْبَهُ بِالْبَيْعِ إلَى الرَّجُلِ قَبْلَ أَنْ يُقَلِّبَهُ ، أَوْ يَنْظُرَ إلَيْهِ – وَنَهَى عَنْ الْمُلَامَسَةِ . وَالْمُلَامَسَةُ: لَمْسُ الثَّوْبِ وَلَا يُنْظَرُ إلَيْهِ . }
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع منابذہ سے منع فرمایا اور (اس سے مراد ) وہ بیع ہے کہ آدمی کا تجارت میں (دوسرے ) آدمی کی طرف کپڑا پھینکنا ، اس سے پہلے کہ وہ اسے بدلے یا اس کی طرف دیکھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع ملامسہ سے منع فرمایا ، ملامسہ سے مراد کپڑے کو دیکھے بغیر چھو کر ہی (خرید و فروخت کرنا ) ۔
شرح المفردات:
المنابذة: ایک دوسرے کی طرف پھینکنا۔ / مصدر، اسم مفاعلہ ۔
الملامسة: ایک دوسرے (سے کپڑا لے کر اس) کو چھونا ۔ / مصدر، اسم مفاعلہ ۔
شرح الحدیث:
انسان کے دین، جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے، اس لیے شریعت اسلامیہ مالی حفاظت کے پیش نظر ہر حال میں انسان کو ضرر و غرر سے بچانے کا حکم دیتی ہے، مذکورہ حدیث میں بیان تجارت کی یہ دو صورتیں بھی سراسر نقصان اور دھوکا ہیں، اسی لیے انھیں ممنوع قرار دیا گیا۔
(255) صحيح البخارى، كتاب البيوع، باب بيع الملامسة ، ح: 2144 – صحيح مسلم ، كتاب البيوع، باب ابطال بيع الملامسة والمنابذة ، ح: 1512
256 – الْحَدِيثُ الثَّانِي: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ { لَا تَلَقَّوْا الرُّكْبَانَ ، وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ . وَلَا [ ص: 496] تَنَاجَشُوا . وَلَا يَبِعْ حَاضِرٌ لِبَادٍ . وَلَا تُصَرُّوا الْغَنَمَ . وَمَنْ ابْتَاعَهَا فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ ، بَعْدَ أَنْ يَحْلُبَهَا . وَإِنْ رَضِيَهَا أَمْسَكَهَا ، وَإِنْ سَخِطَهَا رَدَّهَا وَصَاعًا مِنْ تَمْرٍ . وَفِي لَفْظٍ هُوَ بِالْخِيَارِ ثَلَاثًا } .
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سواروں (یعنی تجارتی قافلوں) سے مت ملو ، نہ ہی تم میں سے کوئی کسی کے سودے پر سودا کرے ، نہ تم (دھوکا دینے کی غرض سے ) بولی بڑھاؤ، نہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لیے خرید و فروخت کرے اور نہ ہی تم بکریوں کا دودھ (ان کے پستانوں میں) روکے رکھو اور جو شخص اسے خریدے تو اسے اس کا دودھ دوہنے کے بعد دو باتوں میں سے ایک کا اختیار حاصل ہے کہ اگر وہ اس سے خوش ہو تو اسے اپنائے رکھے لیکن اگر وہ اس سے ناخوش ہو تو اسے واپس لوٹا دے اور ساتھ ایک صاع کھجور کا دے۔
ایک روایت میں ہے: وہ تین دن تک (واپس کرنے کے) اختیار کا حق رکھتا ہے ۔
شرح المفردات:
لا تلقوا الركبان: سامانِ تجارت لے کر آنے والے قافلوں کو بازار میں پہنچنے سے پہلے منڈی یا شہر سے باہر ہی مل لینا تا کہ وہ انھیں ارزاں نرخوں پر دے دیں اور پھر وہ ان سے خرید کر منڈی میں مہنگے داموں بیچیں ۔ / جمع مذکر حاضر ، فعل نہی معلوم، باب تفعل ۔
لا تناجشوا: آدمی کے خود خریدنے کی نیت نہ ہولیکن وہ لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے اور چیز کا ریٹ بڑھانے کے لیے بولی لگاتا ہے، ایسے لوگ اشیاء فروخت کرنے والوں کے ساتھ ملے ہوتے ہیں، یا تو ان کے اپنے ہوتے ہیں یا کمیشن پر رکھے ہوتے ہیں ۔ /جمع مذکر حاضر ، فعل نہی معلوم، باب مفاعلہ۔
حاضر لباد: ”حاضر“ سے مراد جس شہر یا منڈی وغیرہ میں سامانِ تجارت فروخت ہو رہا ہو ، ”حاضر“ وہاں کا رہنے والا اور ”بادی“ سے مراد اپنا سامان بیچنے کے لیے دیہات سے آنے والا شخص ۔
ولا تصروا العنم: التصرية سے مراد ہے دودھ کو بکری کے پستانوں میں رو کے رکھنا یعنی اسے نکالا نہ جانا تا کہ جب وہ فروخت کی جائے تو خریدنے والے کو اس کے بھرے ہوئے پستان دیکھ کر ایسا لگے کہ یہ بکری بہت زیادہ دودھ دینے والی ہے ۔ / لَا تَصُرُّوا: جمع مذکر حاضر، فعل نہی معلوم، باب نَصَرَ يَنْصُرُ ۔
شرح الحدیث:
بکری واپس کرنے کے ساتھ ایک صاع کھجور کا دینا ہی خاص نہیں کیا گیا بلکہ اگر یہ دستیاب نہ ہوں تو ایک روایت کے مطابق گندم بھی دی جا سکتی ہے ۔ [سنن ابي داؤد: 3446]
علماء کا کہنا ہے کہ جب کھجور کی تخصیص نہیں ہے تو کھجور کی قیمت ادا کرنا بھی جائز ہے۔ [منتهي الارادات للفتوحي: 308/2]
(256) صحيح البخاري، كتاب البيوع ، باب النهى للبائع ، ح: 2150,صحيح مسلم ، كتاب البيوع ، باب تحريم بيع الرجل على بيع أخيه… ، ح: 1515، 1524
257 – الْحَدِيثُ الثَّالِثُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ . وَكَانَ بَيْعًا يَتَبَايَعُهُ أَهْلُ [ ص: 506] الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ الرَّجُلُ يَبْتَاعُ الْجَزُورَ إلَى أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ . ثُمَّ تُنْتَجَ الَّتِي فِي بَطْنِهَا . قِيلَ: إنَّهُ كَانَ يَبِيعُ الشَّارِفَ – وَهِيَ الْكَبِيرَةُ الْمُسِنَّةُ – بِنِتَاجِ الْجَنِينِ الَّذِي فِي بَطْنِ نَاقَتِهِ } .
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبل الحبلہ کی تجارت سے منع فرمایا اور دور جاہلیت کے لوگ یہ تجارت کیا کرتے تھے ، (اس کی صورت یہ تھی) کہ آدمی اونٹنی کو اس وعدے پر خریدتا کہ ایک اونٹنی جنے اور پھر جوا بھی اس کے پیٹ میں ہے بڑی ہوکر وہ بچہ جنے (تو تب اس کی قیمت ادا کروں گا) کہا گیا کہ (اس سے مراد یہ ہے کہ) کوئی آدمی زیادہ عمر والی اونٹنی اس کے پیٹ میں موجود بچے کی پیدائش کی شرط پر فروخت کیا کرتا تھا۔
شرح المفردات:
حبل الحبلة: جو جانور بھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہو، اس کی تجارت کرنا۔
الجزور: اونٹ ، خواہ مذکر ہو یا مؤنث ۔
تنتج: جنم دی جائے گی ۔ / واحد مونث غائب، فعل مضارع مجہول، باب سمع يسمع ۔
شرح الحديث:
حبل الحبلة کی دو صورتیں ہیں اور دونوں ہی باطل ہیں:
ایک یہ کہ اونٹنی کے حاملہ ہونے ، پھر وضع حمل کرنے ، پھر دوسرے پیٹ سے حاملہ ہونے تک کا سودا کیا جائے۔ یہ اس لیے باطل ہے کیونکہ یہ نامعلوم مدت تک کی بیع ہے۔
اور دوسری صورت یہ ہے کہ اونٹنی کے بچے کے بچے کا سودا کیا جائے۔ یہ اس لیے باطل ہے کیونکہ یہ معدوم چیز کی بیع ہے ۔ [شرح عملة الاحكام لابن دقيق العيد: 125/3]
(257) صحيح البخارى، كتاب البيوع ، باب بيع الغرر و حبل الحبلة ، ح: 2143 – صحيح مسلم ، كتاب البيوع، باب تحريم بيع حبل الحبلة ، ح: 3843
258 – الْحَدِيثُ الرَّابِعُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { نَهَى عَنْ بَيْعِ الثَّمَرَةِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا . نَهَى الْبَائِعَ وَالْمُشْتَرِيَ } .
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کی تب تک خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے جب تک کہ ان کا پک جانا ظاہر نہ ہو جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچنے اور خریدنے والے (دونوں ) کو (اس سے) منع فرمایا ہے۔
شرح المفردات:
يبدو: ظاہر ہو جائے، یعنی واضح طور پہ پک جائیں ۔ / واحد مذکر غائب فعل مضارع معلوم، باب نصر ينصر ۔
(258) صحيح البخارى، كتاب البيوع ، باب بيع الثمار قبل ان يبدو صلاحها ، ح: 2194 – صحيح مسلم ، كتاب البيوع ، باب النهي عن بيع الثمار قبل بدو صلاحها ، ح: 1534
شرح الحدیث:
یہ ممانعت بائع اور مشتری کو کسی بھی قسم کے نقصان سے بچانے کے لیے ہے۔
259 – الْحَدِيثُ الْخَامِسُ: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: { أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تُزْهِيَ قِيلَ: وَمَا تُزْهِي؟ قَالَ: حَتَّى تَحْمَرَّ . قَالَ: أَرَأَيْتَ إنْ مَنَعَ اللَّهُ الثَّمَرَةَ ، بِمَ يَسْتَحِلُّ أَحَدُكُمْ مَالَ أَخِيهِ؟ . }
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کی تب تک خرید و فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے جب تک وہ خوب نکھر نہ جائیں۔ پوچھا گیا نکھر جانے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک کہ وہ سرخ نہ ہو جائیں، فرمایا: تمھارا کیا خیال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ پھل دینے سے روک لے تو پھر تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کے مال کو کیونکر حلال سمجھ سکتا ہے؟
شرح المفردات:
ترهي : نکھر جانے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اچھی طرح پک جائیں ۔ / واحد مؤنث ۔ غائب فعل مضارع معلوم، باب افعال ۔
شرح الحديث:
ایک روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل ہے:
لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ ، دَعُوا النَّاسَ يَرْزُقُ اللهُ بَعْضَهُمْ مِنْ بَعْضٍ
اگر تو اپنے بھائی کو پھل بیچے اور اسے کوئی آفت آن پڑے، تو تیرے لیے حلال نہیں ہے کہ تو اس سے اس کی کچھ بھی قیمت لے تو اپنے بھائی کا مال ناحق کیسے پکڑ سکتا ہے؟
[صحيح مسلم: 1554 ، سنن ابي داؤد: 3470 ، سنن النسائى: 4527 ، سنن ابن ماجه: 2219]
(259) صحيح البخارى، كتاب البيوع، باب اذا باع الثمار قبل ان يبدو صلاحها ، ح: 2198 – صحيح مسلم ، كتاب المساقات ، باب وضع الجوائح ، ح: 1555