جواب:
سزا کا تعلق انسان کی غلطی کی نوعیت اور سنگینی سے ہوتا ہے۔ جس کی غلطی جتنی بڑی ہوگی، اسے سزا بھی اسی لحاظ سے ملے گی۔ سب سے سنگین غلطی یہ ہے کہ کوئی شخص حق کو واضح طور پر سمجھ لینے کے باوجود، مرتے دم تک اس کا انکار کرتا رہے۔ اس کا انجام یہ بتایا گیا ہے کہ ایسے شخص کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
اس کے برعکس، خدا نے جنت کا جو تصور دیا ہے، وہ بھی اسی عدل پر مبنی ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ خدا نے ایک چھوٹی سی غلطی پر سخت پکڑ کی ہے، تو اسے یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ خدا ایک چھوٹی سی نیکی پر بھی اتنا ہی بڑا اجر دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص چھوٹی سی غلطی پر خدا کو ناانصافی کا الزام دینے کے لیے تیار ہے، تو وہ اسی خدا کی جانب سے چھوٹی سی نیکی پر ملنے والے اجر کو حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا؟
یہ جواب الزامی نوعیت کا ہے۔
اب معاملے کو اس طرح دیکھیں کہ ہر کام کا معاوضہ پہلے سے طے کیا گیا ہے کہ کس کام پر کتنا انعام یا سزا ملے گی۔ مثلاً، ایک افسر ایک دن کا کام کر کے 3 ہزار روپے کماتا ہے، جبکہ ایک دہاڑی دار مزدور کو اسی کام پر شاید سو روپے بھی نہ ملیں۔ لیکن جب معاوضہ پہلے سے طے ہوچکا ہے، تو پھر اس میں کمی بیشی کو زیادتی نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح، خدا فرماتا ہے کہ جو ایمان لے آئے، اسے ہمیشہ کی جنت ملے گی، اور جو قبول نہ کرے، اسے ہمیشہ کی جہنم ملے گی۔ یہ فیصلہ پہلے ہی طے ہوچکا ہے، اور اس میں کمی بیشی کی صورت زیادتی شمار ہوگی۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ افسر کو تین ہزار اور مزدور کو سو روپے ملنا زیادتی ہے، تو یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ یہ معاوضے پہلے سے طے شدہ ہیں اور ان کی ادائیگی اسی اصول کے مطابق ہوتی ہے۔
قیامت کے دن کوئی بھی خدا پر یہ الزام نہیں لگا سکے گا کہ اس نے ناانصافی کی ہے، کیونکہ ان اجر و سزا کے معاملات اور وعدے خدا نے ہم سے مشاورت کے ساتھ طے کیے تھے اور ہمارے شعور کو یہ بات سمجھا دی تھی۔ جب قیامت کے دن حساب ہوگا، تو یہ تمام معاملات سامنے رکھے جائیں گے، جو ہماری پیدائش سے پہلے طے ہوچکے تھے اور جنہیں ہم نے قبول کیا تھا۔