تخلیق کا مفہوم
ہر زندہ انسان یا مخلوق اپنی زندگی کے عمل کے ذریعے تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مثلاً:
- پرندے کا گھونسلہ
- مصور کی تصویر
- ادیب کی تحریر
- شاعر کے اشعار
- انجینیئر کی عمارتیں یا سائنسدان کے روبوٹ
یہ سب تخلیقی عمل کی عکاس ہیں۔ انسان کی زندگی ہر لمحے تخلیق سے جڑی ہوئی ہے، چاہے وہ شعوری طور پر ہو یا غیر شعوری طور پر۔
خالق اور تخلیق کا تعلق
ہر تخلیق اپنے خالق سے منسوب ہوتی ہے، لیکن یہ تعلق یک طرفہ ہوتا ہے۔ یعنی خالق اپنی تخلیق کو جانتا ہے، لیکن تخلیق اپنے خالق سے بے خبر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، انسان کی تخلیقات، جیسے عمارتیں، مشینیں یا دیگر اشیاء، یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ ان کا خالق کون ہے، کیونکہ وہ بےجان ہیں۔
انسان اور تخلیق میں شعور منتقل کرنے کی صلاحیت
انسان اپنی تخلیقات میں شعور منتقل کرنے سے قاصر ہے کیونکہ شعور ایک غیر مادی وصف ہے اور مادی بنیاد پر تخلیق کیا جانا ممکن نہیں۔ شعور کا تعلق روح سے ہے، جو کہ مادی دنیا کے دائرے سے باہر ہے۔
انسان بطور تخلیق
انسان خود ایک تخلیق ہے، جسے ایک لامحدود اور قادر مطلق خالق نے پیدا کیا۔
- خالق نے انسان کے مادی جسم میں اپنی ذات کا عکس، یعنی روح، ڈال دیا، جس کے باعث انسان اپنے خالق کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
- یہی روح انسان کو یہ شعور دیتی ہے کہ وہ خدا کے بارے میں سوچے، چاہے وہ اس کا اقرار کرے یا انکار کرے۔ لیکن انسان لاتعلق نہیں رہ سکتا۔
خالق کی پہچان میں عقل کا کردار
خالق نے انسان کو شعور کے ساتھ عقل بھی دی ہے، جو دلیل کے ذریعے نتائج اخذ کرتی ہے۔ انسان کے لیے یہ ایک امتحان ہے کہ وہ:
- اپنی عقل کو استعمال کرکے خالق کو پہچانے، یا
- دلائل کی بنیاد پر اس کا انکار کرے۔
جدید دور اور انسان کی تخلیقات
جدید سائنس کی ترقی کے ساتھ، انسان نے روبوٹ اور مصنوعی ذہانت جیسی تخلیقات کی ہیں۔
- ایسا ممکن ہے کہ انسان ایک دن اپنی تخلیقات میں محدود پیمانے پر شعور منتقل کر دے، مثلاً روبوٹ کو انسانی ذہن کی طرح سوچنے کے قابل بنا دے۔
- لیکن انسان مکمل طور پر "خالق” کا درجہ حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اپنے اندر روح جیسا غیر مادی عنصر پیدا کرنے سے قاصر ہے۔
- انسان اپنی تخلیقات میں صرف محدود مادی شعور منتقل کرسکتا ہے، لیکن روحانی شعور دینا انسان کے بس کی بات نہیں۔
تمثیل: دو بچے اور ماں کا تصور
ایک ماں کے رحم میں دو بچوں کی گفتگو ایک دلچسپ تمثیل کے ذریعے زندگی کے فلسفے کو سمجھاتی ہے:
- ایک بچہ زچگی کے بعد کی زندگی پر یقین رکھتا ہے جبکہ دوسرا اس کا انکار کرتا ہے۔
- پہلا بچہ مستقبل کے حالات کا تصور کرتا ہے، مثلاً زیادہ روشنی، پیروں سے چلنا، اور منہ سے کھانے کا عمل۔
- دوسرا بچہ ان تمام باتوں کو غیر منطقی قرار دیتا ہے اور صرف اپنے موجودہ تجربات پر یقین رکھتا ہے۔
- پہلا بچہ ماں کے وجود پر یقین رکھتا ہے، حالانکہ ماں اسے نظر نہیں آتی۔
- دوسرا بچہ ماں کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا کیونکہ وہ اسے دیکھ یا سن نہیں سکتا۔
یہ تمثیل انسانی زندگی میں خدا کے وجود پر ہونے والے مباحث کی عکاسی کرتی ہے۔
- جیسے بچے ماں کے وجود کا یقین اپنی فطرت کے ذریعے محسوس کرتے ہیں، ویسے ہی انسان اپنے خالق کے وجود کو محسوس کرتا ہے، چاہے اسے دیکھ نہ سکے۔
- ایمان کا تعلق مشاہدے سے نہیں، بلکہ فطری شعور اور وجدان سے ہے۔
نتیجہ
انسان کی تخلیق کے پیچھے ایک عظیم خالق کی حکمت پوشیدہ ہے۔ جدید دور کی سائنسی ایجادات انسان کو اس کے خالق کے شعور کی جھلک دکھاتی ہیں، لیکن انسان کبھی مکمل طور پر اپنے خالق جیسا نہیں بن سکتا۔ انسان کو اپنے عقل اور شعور کو استعمال کرتے ہوئے خدا کی پہچان کرنی چاہیے اور اپنی محدود حیثیت کو سمجھنا چاہیے۔