انبیا، اولیاء اور صلحا سے تبرک کے بارے میں غلط عوامی عقائد
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

مختلف عقائد اور نظریات

ہمارے معاشرے میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو انبیا، رسل اور اولیا کے بارے میں مختلف اور غیر مستند عقائد رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان ہستیوں کو خدا کی ذات کا مظہر، مالکِ خزائن الٰہی، ہر بلا کے دافع، جان و مال کے مالک اور دنیا و آخرت کی نعمتوں کا دینے والا سمجھا جاتا ہے۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ شخصیات دنیا میں تصرف کرنے، نعمتیں عطا کرنے اور نفع و نقصان کی کنجیاں اپنے قبضے میں رکھتی ہیں۔

اولیا اور صلحا سے مدد مانگنا

یہ عقیدہ بھی پایا جاتا ہے کہ اولیا کو دور و نزدیک سے پکارا جا سکتا ہے، ان کے نام کی دہائی دینا جائز ہے، اور ان سے مدد کی التجا کرنا بھی درست ہے۔ وہ ان ہستیوں کے آگے جھکتے، سجدہ کرتے اور ان کے نام کی نذر اتارتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ شخصیات دلوں کے بھید جانتی ہیں، حالات سے واقف ہوتی ہیں اور علم غیب رکھتی ہیں۔

قبروں کی تعظیم

ان عقائد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اولیا کی قبروں کو پختہ کرنا، ان پر قبے بنانا، وہاں عرس اور میلوں کا اہتمام کرنا جائز ہے۔ قبروں پر چادریں چڑھانا، سبیلیں لگانا اور چراغ جلانا، یہ سب ان کی تعظیم کے حصے سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ قبروں پر نماز اور قرآن مجید کی تلاوت بھی ان کے نزدیک باعثِ برکت ہے۔

تبرک اور توسل کا غیر شرعی استعمال

ان تمام خرافات اور بدعات کو جائز ثابت کرنے کے لیے غیر شرعی تبرک اور توسل کا سہارا لیا جاتا ہے۔ سابقہ مشرکین بھی اپنے بزرگوں کے بارے میں ایسے ہی نظریات رکھتے تھے اور ان سے تبرک حاصل کرنے کو شرک کے طور پر اپناتے تھے۔

تبرک کا دائرہ اور اس کی حقیقت

نبی کریم ﷺ کی ذات کے ساتھ تبرک کا ایک خاص مقام ہے، جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا۔ نبی کریم ﷺ کے بعد اولیا و صالحین سے تبرک لینا شریعت کی روح کے منافی ہے۔ بعض لوگ اولیا سے بھی تبرک لینے کو جائز سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ عقیدہ نصوص کی معنوی تحریف ہے۔

ایک شبہہ اور اس کا ازالہ

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا زمانہ آئے گا جب لوگوں کی جماعتیں جہاد کریں گی اور ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی رسول اللہ ﷺ کا صحابی ہے؟‘‘ (صحیح البخاری: 3649، صحیح مسلم: 2532)

اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فتح و نصرت صحابہ کرام کے اعمالِ صالحہ اور دعاؤں کی برکت سے حاصل ہوتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے تبرک لیا جائے۔

تبرک اور توسل کا صحیح مفہوم

اہل سنت کے نزدیک زندہ لوگوں کی دعاؤں کا وسیلہ لینا جائز ہے، لیکن فوت شدگان یا غیر موجود اولیا سے تبرک حاصل کرنا دینی تعلیمات کے منافی ہے۔

موجودہ دور میں انبیا کی قبور

شیخ حماد بن محمد انصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں سوائے نبی اکرم ﷺ کے کسی نبی کی قبر معلوم نہیں۔ (المجموع في ترجمۃ العلاّمۃ المحدّث الشيخ حمّاد بن محمّد الأنصاري: 504/2)

یہ بیان اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ انبیا کی قبور کے بارے میں عوامی عقائد بے بنیاد ہیں۔

خلاصہ

موجودہ دور میں انبیا، رسل اور اولیا کے بارے میں جو عقائد عام ہیں، وہ شرعی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ تبرک اور توسل کا غیر شرعی استعمال اور قبروں کی تعظیم کا عمل بدعات اور خرافات کی نشانی ہے، جسے اسلامی تعلیمات میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔

حوالاجات

صحیح البخاری: 3649
صحیح مسلم: 2532
صحیح البخاری: 2596
مسند الإمام أحمد: 198/5
سنن أبي داود: 2594
سنن النسائي: 3181
سنن الترمذي: 1702
صحیح ابن حبان: 4767
المستدرک للحاکم: 104/2، 105
سنن النسائي: 3180
حلیۃ الأولیاء: 26/2
المجموع في ترجمۃ العلاّمۃ المحدّث الشيخ حمّاد بن محمّد الأنصاري: 504/2

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے