حدیث کو صحیح یا ضعیف کہنے کے بارے میں امین اوکاڑوی کا باطل اصول
ماسٹر امین اوکاڑوی آلِ دیو بند کے مناظر تھے۔ ان کی ایک خاص عادت یہ تھی کہ بس دوسروں سے سوالات کئے جاؤ اور اپنی کسی بات کا بھی پاس لحاظ نہ رکھو۔
امین اوکاڑوی کا اہل حدیث (اہل سنت) سے یہ تکیہ کلام ہوتا تھا کہ آپ لوگ حدیث کو صحیح یا ضعیف کہتے ہیں تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کا صحیح یا ضعیف ہونا ثابت کریں۔
اب ظاہر ہے کہ یہ ایک غلط سوال ہے اور یہ سوال اہلِ حدیث (اہل سنت) سے اس لئے کیا جاتا ہے، کیونکہ اہل حدیث کہتے ہیں کہ اہل حدیث کے دواصول:
اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ
دراصل یہ بات اس حدیث کا مفہوم ہے جس میں ہے کہ ’’اے لوگو! میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں۔ اگر تم نے ان کو مضبوطی سے پکڑا تو ہر گز گمراہ نہ ہو گے۔ ان میں سے ایک کتاب اللہ اور دوسری سنت رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے‘‘
پہلی بات تو یہ ہے کہ آل دیو بند بھی اس حدیث کو مانتے ہیں اور انھوں نے بھی اس حدیث کو اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے امین اوکاڑوی کی کتاب:
تجلیات صفدر (۴۹/۶) سرفراز صفدر کی کتاب : راہ سنت ( ص ۲۵) عمر قریشی کی کتاب: عادلانہ دفاع ( ص ۶۲ ، یہ کتاب بیس پچیس علمائے دیوبند کی مصدقہ کتاب ہے۔) اور محمد الیاس فیصل دیو بندی کی کتاب : نماز پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم (ص ۲۸)
اشرف علی تھانوی دیوبندی نے بھی لکھا ہے:
’’اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی سب باتیں قرآن وحدیث میں بندوں کو بتادیں اب کوئی نئی بات دین میں نکالنا درست نہیں۔ ایسی نئی بات کو بدعت کہتے ہیں۔ بدعت بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘
(بہشتی زیور حصہ اول ص ۳۱ باب عقیدوں کا بیان عقیدہ نمبر ۲۲)
اہل حدیث کے اصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے ، اہل حدیث عالم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے اہل حدیث عالم حافظ عبداللہ غازیپوری رحمہ اللہ کا قول یوں نقل کیا ہے:
واضح رہے کہ ہمارے مذہب کا اصل الاصول صرف اتباع کتاب وسنت ہے اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اہل حدیث کو اجماع امت اور قیاس شرعی سے انکار ہے۔ کیونکہ جب یہ دونوں کتاب وسنت سے ثابت ہیں تو کتاب وسنت کے ماننے میں انکا ماننا آ گیا۔‘‘
(الحدیث حضرو : اص۴، الحدیث :۵۲ ص ۱۵، القول المتین ص ۱۷)
جبکہ دیوبندی مفتی رشید احمد لدھیانوی نے لکھا ہے:
’’اور مقلد کے لئے قول امام حجت ہوتا ہے نہ کہ ادلہ اربعہ‘‘
(ارشاد القاری ص۴۱۲)
ادلہ اربعہ سے مراد قرآن، سنت، اجماع اور قیاس ہوتا ہے۔
مفتی رشید احمد لدھیانوی دیوبندی نے دوسری جگہ لکھا ہے:
’’مقلد کے لئے صرف قول امام ہی حجت ہوتا ہے‘‘
(ارشاد القاری ص ۲۸۸)
امین اوکاڑوی کے اہل حدیث سے اس مطالبے کے بعد کہ حدیث کو صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے صحیح یا ضعیف ثابت کرو خود آل دیو بند سے بھی سوال کیا جاسکتا ہے کہ آپ کے کتنے اصول ہیں اور آپ حدیث کو صحیح یا ضعیف کس طرح کہتے ہیں؟ تو اس کے لئے امین اوکاڑوی کی ایک عبارت نقل کی جاتی ہے، جس میں اوکاڑوی کی گفتگو اوکاڑوی کے بقول کسی دوسرے دیو بندی سے ہوئی ، چنانچہ اوکاڑوی نے لکھا ہے:
ایک دن ایک صاحب تشریف لائے جو ایک ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب تھے۔ وہ فرمانے لگے کہ غیر مقلدین پہلے تو کہتے رہتے ہیں کہ احناف کے پاس کوئی حدیث نہیں اور اگر کوئی حدیث ہم پیش کریں تو وہ فوراً شور مچادیتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے، من گھڑت ہے تو احادیث کے صحیح اور ضعیف ہونے کا پتہ کیسے چلتا ہے اور کس دلیل سے ثابت ہوتا ہے کہ فلاں حدیث صحیح ہے اور فلاں غلط ۔ میں نے کہا کہ غیر مقلدوں کو سرے سے اس بات کا حق ہی نہیں پہنچتا کہ وہ کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف کہیں۔ تو فرمانے لگے وہ کیوں؟ میں نے کہا ان کا دعوی ہے کہ ہم صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو دلیل مانتے ہیں کسی امتی کی بات بالکل دلیل نہیں ہوتی ۔ تو فرمانے لگے بالکل صحیح ، یہی ان کا دعویٰ ہے۔ وہ تقریروں میں بھی یہی کہتے ہیں اور دیواروں پر بھی یہی لکھتے ہیں۔ اہل حدیث کے دو اصول :
فرمان خدا، فرمان رسول ۔ میں نے کہا وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی امتی کی بات ماننا شرک ہے۔ وہ فرمانے لگے بالکل ۔ میں نے کہا پھر انہیں ان کے دعوئی کے پابند کیوں نہیں کرتے ؟ فرمانے لگے وہ کیسے؟ میں نے کہا وہ جس حدیث کو صحیح کہیں اس کا صحیح ہونا اللہ اور رسول کے فرمان سے ثابت کریں اور جس حدیث کو ضعیف کہیں اللہ اور رسول کے فرمان سے اس کا ضعیف ہونا ثابت کریں۔ وہ فرمانے لگے کہ اللہ اور رسول نے نہ تو کسی حدیث کو صحیح فرمایا ہے نہ ضعیف۔ میں نے کہا پھر ان کو بھی نہ کسی حدیث کو صحیح کہنا چاہئے نہ ضعیف ۔ وہ فرمانے لگے کہ یہ تو بالکل ان کے اصول کے مطابق ہے اور اگر وہ اپنے اس اصول سے ہٹ جائیں تو وہ اہل حدیث ہی نہ رہے۔ وہ فرمانے لگے کہ ان کی تو بات ہی ختم ہو گئی۔ اب وہ ہمارے سامنے نہ کسی حدیث کو صحیح کہہ سکیں گے اور نہ ضعیف ۔ آخر ہم کیسے جانیں کہ یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟ میں نے کہا ہم جب حدیث پیش کریں گے تو صاف صاف کہہ دیں گے کہ بھائی اس حدیث کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح فرمایا ہے اور نہ ضعیف ۔ ہاں ! یہاں اللہ اور رسول سے کچھ نہ ملے تو حدیث معاذ رضی اللہ کے مطابق مجتہد کو اجتہاد کا حق ہوتا ہے۔ اب دیکھا جائے گا کہ اس حدیث پر چاروں اماموں نے عمل کیا ہے تو اس حدیث کو ہم ’’دلیل اجماع‘‘ سے صحیح اور قابل عمل قرار دیں گے اور اگر اس حدیث پر چاروں اماموں میں سے کسی نے بھی عمل نہیں کیا تو ہم بہ دلیل اجماع اس کو متروک العمل قرار دیں گے اور اگر اس حدیث کے موافق عمل کرنے اور نہ کرنے میں چاروں اماموں میں اختلاف ہو تو ہم اب فیصلہ اپنے امام سے لیں گے کیونکہ ہمارے امام کا یہ اعلان موافق مخالف سب جانتے ہیں کہ اذا صح الحدیث فهو مذهبی، کہ جب میرے نزدیک دلیل سے حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو میں اس کو اپنا مذہب قرار دیتا ہوں تو جب میرے امام کا عمل اس حدیث کے موافق ہے تو میرے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے اور اگر کسی حدیث پر میرے امام کا عمل نہیں تو انہوں نے یقیناً کسی دلیل سے اس پر عمل ترک فرمایا ہے اس لئے میرے نزدیک یہ حدیث اسی دلیل سے متروک العمل ہے جو میرے امام کے سامنے ہے۔ اور غیر مقلد کے ساتھ تو صاف بات کریں کہ تیرا کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف کہنا جس طرح تیرے اصول پر غلط ہے جیسا کہ گزر چکا ہے اسی طرح میرے اصول پر بھی غلط ہے کیونکہ اگر چہ میں چار دلائل کو مانتا ہوں مگر نہ تو خدا ہے نہ رسول کہ میں تیری بات مانوں اور نہ ہی اجماع ہے اور نہ ہی تو مجتہد ۔ تو میں آخر خیر القرون کے مجتہد اعظم کی تقلید چھوڑ کر تیری بات کیوں مانوں اور میں خیر القرون کا من وسلوی چھوڑ کر پندرہویں صدی کا گلا سڑا لہسن اور پیاز کیوں قبول کروں ۔ انہوں نے فرمایا آپ کی یہ بات بالکل اصولی بات ہے۔ اب انشاء اللہ العزیز کسی بے اصولے کی بات ہم چلنے نہیں دیں گے ۔
(تجلیات صفدر ۱۳/۴۔۱۵)
اوکاڑوی کا یہ کہنا کہ میں ’’چار دلائل کو مانتا ہوں‘‘ دیو بندی ’’مفتی‘‘ رشید احمد لدھیانوی کے قول کی صریح مخالفت ہے۔
اوکاڑوی کی مذکورہ عبارت میں اگر چہ جھوٹ بھی شامل ہے، لیکن چونکہ اس وقت میرا یہ موضوع نہیں، لہذا اسے نظر انداز کیا جاتا ہے۔
اوکاڑوی کی مذکورہ عبارت میں دیو بندی کے یہ الفاظ بھی ہیں:
’’اب وہ ہمارے سامنے نہ کسی حدیث کو صحیح کہہ سکیں گے اور نہ ضعیف‘‘
اس پر میں اپنی طرف سے کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے اوکاڑوی کی عبارت ہی نقل کر دیتا ہوں جو اس نے کسی اہل حدیث کے خلاف لکھی ہے اور اب موقع کی مناسبت سے دیو بندی پر ہی چسپاں کی جاتی ہے۔ چنانچہ امین اوکاڑوی نے لکھا ہے:
’’لفظ ہمارے سے مراد اگر آپ صرف میاں بیوی ہیں تو شاید آپ کی بات صحیح ہو‘‘
(تجلیات مندر ۳۹۵/۷)
کیونکہ اوکاڑوی کا باطل اصول اکا بر دیو بند کے نزدیک بالکل صحیح نہیں ۔ آل دیوبند
کے امام سرفراز صفدر نے لکھا ہے:
’’فن حدیث کے پیش نظر اس سے استدلال ہر گز صحیح نہیں ہے۔ امام ابولیث اگر چہ ایک بہت بڑے فقیہ ہیں مگرفن روایت اور حدیث میں تو حضرات محمد ثین کرام کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ لہذا ان کی پیش کردہ روایت کو اسماء الرجال کی
کتابوں سے پر کچھ کر دیکھیں گے کیونکہ یہی وہ فن ہے جو حدیث کا محافظ ہے۔‘‘
(راه سنت ص ۲۸۷، الحدیث حضرو : ۵۸ ص۲۲)
سرفراز صفدر نے مزید کہا:
’’بلا شک امام محمد بن عابدین شامی (المتوفی ۱۲۵۲ھ ) کا مقام فقہ میں بہت اونچا ہے لیکن فن حدیث اور اور روایت میں محدثین ہی کی بات قابل قبول ہوتی ہے جو جرح و تعدیل کے مسلم امام ہیں“
(باب جنت ص ۲۵)
اصولی طور پر تو اوکاڑوی کا اصول سرفراز صفدر کی عبارتوں سے بالکل باطل ثابت ہو چکا ہے، البتہ اوکاڑوی کے باطل اصول کے خلاف کچھ مثالیں بھی بیان کی جاتی ہیں:
① شوال کے چھ (۶) روزوں کی حدیث:
یہ حدیث بے شمار آل دیو بند کے نزدیک صحیح ہے، کیونکہ یہ لوگ ان روزوں کی فضیلت اپنی کتابوں اور رسالوں میں بیان کرتے رہتے ہیں، اس کے لئے آپ دیکھ سکتے ہیں:
بہشتی زیور حصہ سوم (ص ۹ مسئلہ نمبر ۱۳ ص ۲۵۱) اور محمد ابراہیم صادق آبادی کی کتاب:
چار سوا ہم مسائل (ص۱۹۲)
آل دیوبند کے ’’مفتی‘‘ حبیب الرحمٰن لدھیانوی، تبلیغی جماعت والے محمد زکریا کاندھلوی اور ابن عابدین شامی وغیرہ نے بھی شوال کے روزوں کو مستحب قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے ہفت روزہ ختم نبوۃ ( جلد ۲۹ شمار ۳۴۰- ۳۵ ص ۱۳)
اور خود امین اوکاڑوی سے جو ’’انوارات‘‘ محمود عالم صفدر دیو بندی کو حاصل ہوئے ہیں،اس میں لکھا ہوا ہے:
’’کچھ متواترات کی فہرست ذیل میں دی جاتی ہے ۔‘‘
(انوارات صفدر ا/۱۸۴)
اس کے بعد (۲۱) نمبر کے تحت لکھا ہے :
’’شوال کے چھ روزے‘‘
(انوارات صفد را (۱۸۶)
قارئین کرام ! محمود عالم صفدر دیوبندی نے شوال کے چھ روزوں کی حدیث کو اتنا صحیح مان لیا کہ متواترات میں شامل کر دیا، لیکن اس کے باوجود یہ حدیث تمام دیو بندیوں کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ بعض کے نزدیک یہ حدیث بھی ضعیف ہے اور شوال کے چھ روزے بھی مستحب نہیں بلکہ مکروہ ہیں اور ان کا یہ دعویٰ ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ روزے مکروہ ہیں۔ اس کے لئے آپ دیکھ سکتے ہیں آل دیوبند کے ’’مفتی‘‘ زرولی خان دیو بندی کی کتاب :
’’احسن المقال فی کراہیتہ صوم ستہ شوال‘‘ یعنی شوال کے چھ روزوں کے مکروہ ہونے کی تحقیق۔
سرفراز صفدر نے لکھا ہے:
’’امام مالک شوال کے چھ روزوں کو مکر وہ کہتے ہیں (جو کہ صحیح حدیث سے ثابت ہیں)
(طائفہ منصور وص ۱۴۷)
تنبیہ:
بریکٹوں والے الفاظ بھی سرفراز صفدر کے ہیں۔
قارئین کرام ! اس حدیث کو اکثر دیو بندی صحیح مانتے ہیں، جیسا کہ حوالہ جات نقل کئے جاچکے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ سرفراز صفدر وغیرہ نے جو اس حدیث کو صحیح کہا ہے تو کس اصول سے؟ اگر اوکاڑوی کے اصول کے مطابق دیکھا جائے تو پھر نہ تو اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور چاروں اماموں میں سے بقول سرفراز صفدر اور زرولی دیو بندی ’’امام مالک رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ‘‘ نے اس حدیث پر عمل نہیں کیا، لہذا اوکاڑوی کی تیسری اور چوتھی دلیل بھی ختم ، لہذا جن دیو بندیوں نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ان کے نزدیک اوکاڑوی کا اصول باطل ہے، جیسا کہ شروع میں سرفراز صفدر کی عبارتوں سے بھی واضح کیا گیا ہے۔ البتہ اوکاڑوی کے نزدیک ایسے دیوبندی چار دلیلوں سے باہر نکل چکے ہیں اور اوکاڑوی کے قریبی ساتھی عبدالحق نقشبندی دیوبندی نے لکھا ہے :
دلائل شرعیہ چار ہیں۔
① قرآن حکیم .
② سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم .
③ اجماع امت.
④ قیاس مجتہد .
ان ہی دلائل اربعہ کو اصول فقہ کہا جاتا ہے۔
(مرزا غلام احمد قادیانی کا فقہی مذہب ص ۱۳)
مزید لکھا ہے :
’’جب یہ معلوم اور واضح ہو چکا کہ مقلد اپنی فقہ اور اصول فقہ کی روشنی میں دلائل اربعہ کے دائرہ میں بند رہنے کا پابند ہوتا ہے۔ اور ان سے باہر نکلنے کی صورت میں وہ مقلد رہتا ہی نہیں۔‘‘
(مرزاغلام احمد قادیانی کا فقہی مذہب ص ۱۴)
سرفراز صفدر دیو بندی آل دیوبند کے بہت بڑے عالم تھے ، اوکاڑوی کے باطل اصول کی وجہ سے دائرہ تقلید سے نکل کر غیر مقلد ثابت ہوئے اور غیر مقلد کے بارے میں اوکاڑوی نے لکھا ہے:
’’جو جتنا بڑا غیر مقلد ہوگا اتنا ہی بڑا گستاخ اور بے ادب بھی ہوگا‘‘
(تجلیات صفدر ۳ /۵۹۰)
اشرف علی تھانوی دیوبندی نے کہا:
’’امام اعظم کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے‘‘
(مجالس حکیم الامت ص ۳۴۵، ملفوظات حکیم الامت ۳۳۲/۲۴)
② مزارعت کے جواز کی حدیث:
آل دیوبند کے شیخ الاسلام محمد تقی عثمانی نے لکھا ہے:
’’مزارعت امام ابو حنیفہ کے نزدیک ناجائز ہے، لیکن فقہا حنفیہ نے امام صاحب کے مسلک کو چھوڑ کر مناسب حصہ پیداوار کی مزارعت کو جائز قرار دیا ہے، اور یہ مثالیں تو ان مسائل کی ہیں جن میں تمام متاخرین فقہا حنفیہ امام صاحب کے قول کو ترک کرنے پر متفق ہو گئے، اور ایسی مثالیں تو بہت سی ہیں جن میں بعض فقہا نے انفرادی طور پر کسی حدیث کی وجہ سے امام ابو حنیفہ کے قول کی مخالفت کی ہے‘‘
(تقلید کی شرعی حیثیت ص ۱۰۸)
اب ظاہر ہے کہ مزارعت کے جواز کی حدیث کو نہ تو اللہ تعالیٰ نے صحیح کہا ہے اور نہ رسول صلی علیم نے صحیح کہا ہے۔ اور چار اماموں میں سے بقول تقی عثمانی امام ابوحنیفہ کا عمل اس حدیث کے مطابق نہیں، لہذا اوکاڑوی کی تیسری اور چوتھی دلیل بھی ختم اور جن فقہاء حنفیہ نے اس حدیث کو صحیح سمجھا ان کے نزدیک اوکاڑوی کا اصول باطل ہے، بلکہ جھوٹ پر مبنی ہے اور یہ تو بہت ہی اچھا ہوا کہ وہ فقہاء اوکاڑوی سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے، ورنہ انھیں بھی مزارعت والی حدیث کو صحیح کہنے سے اوکاڑوی پارٹی روکتی اور نہ رکنے کی وجہ سے غیر مقلد وغیرہ کہہ کر طعنہ دیتی۔!
③ عقیقہ کی حدیث:
غلام رسول سعیدی بریلوی نے لکھا ہے :
’’احادیث صحیحہ میں عقیقہ کی فضیلت اور استحباب کو بیان کیا گیا ہے لیکن غالباً یہ احادیث امام ابو حنیفہ اور صاحبین کو نہیں پہنچیں ، کیونکہ انہوں نے عقیقہ کرنے سے منع کیا ہے ۔
(شرح صحیح مسلم ۴۳/۱)
محمد بن حسن شیبانی کی طرف منسوب موطا میں لکھا ہوا ہے:
’’محمد (بن حسن شیبانی) نے کہا کہ عقیقہ کے متعلق ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ جاہلیت میں رائج تھا اسلام کے ابتدائی دور میں کیا گیا۔ پھر قربانی نے ہر ذبح کو منسوخ کر دیا ماہ رمضان کے روزوں نے تمام روزوں کو منسوخ کر دیا جو اس سے پہلے تھے‘‘
(موطا محمد بن حسن شیبانی مترجم ص ۳۳۵)
محمد بن حسن شیبانی نے مزید کہا:
’’عقیقہ نہ بچے کی طرف سے کیا جائے اور نہ بچی کی طرف سے‘‘
(الجامع الصغیرص ۵۳۴ ، دوسرا نسخه ص ۴۹۵)
امین اوکاڑوی نے لکھا ہے :
’’امام ابو یوسف رحمہ اللہ، امام محمد رحمہ اللہ، امام حسن رحمہ اللہ، امام زفر رحمہ اللہ سب نے بڑی مضبوط قسمیں کھا کر بیان کیا کہ ہمارا ہر قول امام صاحب سے ہی منقول ہے۔‘‘
(تجلیات صفدر ۱۵۹/۶)
قارئین کرام ! عقیقہ کی احادیث کو بھی آل دیو بند صحیح سمجھتے ہیں، لیکن اوکاڑوی کے اصول کے مطابق آل دیو بند عقیقہ کی احادیث کو بھی صحیح نہیں کہہ سکتے ۔!
لہذا اوکاڑوی کا اصول باطل ہے، بلکہ جھوٹ پر مبنی ہے۔
④ روزے کی حالت میں گرمی کی شدت سے سر پر پانی ڈالنے کی حدیث :
عبد الشکور لکھنوی نے لکھا ہے:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ پیاس یا گرمی کی شدت سے صوم کی حالت میں اپنے سر پر پانی ڈالا تھا (ابوداود)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کپڑے کو تر فرما کر اپنے بدن پر لپیٹ لیتے تھے
امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ افعال مکروہ ہیں مگر فتویٰ ان کے قول پر نہیں ۱۲ (ردالمختار)
( علم الفقه ص ۴۳۶ ، دوسرا نسخه ص ۴۶۸ ، وہ صورتیں جن میں روزہ فاسد نہیں ہوتا)
اس حدیث کو دیو بندیوں نے صحیح تسلیم کر کے امام ابو حنیفہ کا قول رد کر دیا ہے لیکن یہ حدیث اوکاڑوی کے اصول پر کسی طرح بھی صحیح ثابت نہیں کی جاسکتی، کیونکہ اس حدیث کو نہ تو اللہ اور رسول نے صحیح فرمایا ہے اور نہ اوکاڑوی کے اصول کے مطابق اس کے صحیح ہونے پر اجماع ہے، اس لئے کہ امام ابو حنیفہ کا قول اس حدیث کے خلاف ہے، لہذا ثابت ہوا کہ اوکاڑوی کا اصول باطل بلکہ جھوٹ پر مبنی ہے۔
⑤ ہر نشہ آور چیز کے حرام ہونے کی حدیث:
تقی عثمانی نے لکھا ہے:
”انگور کی شراب کے علاوہ دوسری نشہ آور اشیاء کو اتنا کم پینا جس میں نشہ نہ ہو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قوت حاصل کرنے کے لئے جائز ہے۔ لیکن فقہاء حفیہ نے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو چھوڑ کر جمہور کا قول اختیار کیا۔ اور یہ مثالیں ان مسائل کی ہیں جن میں تمام متاخرین فقہ حنفیہ امام صاحب کے قول کو ترک کرنے پر متفق ہو گئے‘‘
(تقلید کی شرعی حیثیت ص ۱۰۷ تا ۱۰۸)
نوٹ :
تقی عثمانی کے نزدیک فقہاء حنفیہ نے امام صاحب کے ان مسائل کو صحیح صریح احادیث کی وجہ سے چھوڑا ہے۔ تقی عثمانی صاحب جن احادیث کو صحیح صریح قرار دے رہے ہیں وہ اوکاڑوی اصول کے مطابق کسی طرح بھی صحیح ثابت نہیں ہو سکتیں، لہذا اوکاڑوی کا اصول باطل ہے، بلکہ جھوٹ پر مبنی ہے۔
نیز خیر محمد جالندھری دیو بندی کہ جن کے بارے میں امین اوکاڑوی نے لکھا ہے:
’’حضرت اقدس مولانا خیر محمد صاحب جالندھری قدس سرہ کا نام نامی اسم گرامی نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی مقدس تالیفات کا یہ گلدستہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔‘‘
(تجلیات صفدر ۳۰۶/۵)
اوکاڑوی نے مزید کہا:
’’تفسیر قرآن کے بعد اصول حدیث کے بارے میں خیر الاصول نامی رسالہ ہے ۔ اصول حدیث کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا کو اس طرح کوزہ میں بند فرمایا ہے کہ خیر الاصول بالکل خیر الکلام ماقل و دل کا شاہکار ہے۔‘‘
(تجلیات صفدر ۳۰۶/۵)
اور خیر الاصول میں خیر محمد جالندھری نے لکھا ہے :
’’پہلی قسم وہ کتابیں ہیں جن میں ہیں۔ این بی حاکم ، سب حدیثیں صحیح ہیں ۔ جیسے موطا امام مالک صحیح بخاری، صحیح مسلم ،صحیح ابن حبان، صحیح حاکم ، مختاره ضیاء مقدسی، صحیح ابن خزیمہ، پیچ ابی عوانہ، صحیح ابن سکن، منتقی ابن جارود۔‘‘
(خیر الاصول ص ۱۱، آثار خیر ص ۱۲۳)
خیر محمد جالندھری نے جن احادیث کو صحیح کہا ہے، اوکاڑوی اصول کے مطابق ان کو کسی طرح بھی صحیح نہیں کہا جا سکتا، لہذا اوکاڑوی کا اصول باطل ہے، بلکہ جھوٹ پر منی ہے۔
ابو بکر غاز پوری دیوبندی جس کو آل دیو بند ’’رئیس المحققین‘‘ کہتے ہیں، نے لکھا ہے:
’’کسی حدیث کی صحت کیلئے بس یہ کافی ہے کہ وہ بخاری شریف میں موجود ہے،‘‘
(آئینہ غیر مقلدیت از غاز یپوری ص ۲۰۷)
غاز یپوری کے قول کے مطابق بھی اوکاڑوی کا اصول باطل، بلکہ جھوٹ پر مبنی ہے۔ رشید احمد گنگوہی دیوبندی نے لکھا ہے :
’’ احادیث جہر آمین و رفع یدین وغیرہ میں صحیح ہیں‘‘
(جواہر الفقہ ۱۴۹/۱)
اور اسی رشید احمد گنگوہی نے کہا:
’’کہ (اتنے) سال حضرت صلى الله عليه وسلم میرے قلب میں رہے اور میں نے کوئی بات بغیر آپ سے پو چھے نہیں کی ۔‘‘
(ارواح ثلاثہ شخص ۳۰۸، حکایت نمبر ۳۰۷)
لیکن اوکاڑوی کے اصول کے مطابق گنگوہی کی بات بھی غلط ثابت ہو رہی ہے، لہذا اوکاڑوی کا اصول باطل ہے، بلکہ جھوٹ پر مبنی ہے۔
اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں، جیسا کہ تقی عثمانی نے بھی لکھا ہے:
’’بہت سے مسائل میں مشائخ حنفیہ نے امام ابوحنیفہ کے قول کے خلاف فتوی دیا ہے،‘‘
(تقلید کی شرعی حیثیت ص ۵۸)
مشائخ حنفیہ نے جن احادیث کو صحیح سمجھ کر امام ابو حنیفہ کے قول کے خلاف فتوی دیا ہے وہ احادیث اوکاڑوی اصول پر کسی طرح بھی صحیح ثابت نہیں ہو سکتیں۔
لہذا ثابت ہوا کہ اوکاڑوی کا اصول ہر لحاظ سے باطل ہے اور اس طرح اوکاڑوی نےایک غلط اصول بنا کر کتنی صحیح احادیث کے انکار کی راہ ہموار کی ہے۔
اگر کسی اہل حدیث (اہل سنت) کے خلاف کوئی دیو بندی اوکاڑوی کی بولی بولے تو اہل حدیث (اہل سنت) بھائی کو چاہئے کہ ایسے دیو بندی سے کہے:
پہلے اوکاڑوی اصول کے مطابق میرے مضمون میں ذکر کردہ احادیث کو صحیح ثابت کر کے دکھائے ۔ نیز امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب جو اقوال ہیں ان کے صحیح یا ضعیف ہونے کا کیسے پتہ چلے گا اور اگر دیو بندی کوئی فلسفہ بیان کرے تو ان شاء اللہ اس میں وہ نا کام ہی رہے گا، کیونکہ نماز ظہر کے آخری وقت اور نماز عصر کے اول وقت کے متعلق امام ابوحنیفہ کے چار اقوال ہیں۔
(دیکھئے تجلیات صفدر ۸۶/۵)
اور امام ابو حنیفہ کا دوسرا قول وہی ہے جو کہ ائمہ ثلاثہ اور صاحبین کا ہے، امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس کو اختیار کیا ہے اور صاحب در مختار نے لکھا ہے کہ آج کل لوگوں کا عمل اسی پر ہے اور اسی پر فتوی دیا جاتا ہے۔
(تجلیات صفدر ۸۶/۵)
لیکن آل دیوبند کا عمل امام ابو حنیفہ کے اس قول پر نہیں بلکہ پہلے قول پر ہے اور ان کا یہ دعوی ہے کہ ’’ہم نے ’’قوت دلیل‘‘ کی بنا پر پہلے قول کو ترجیح دی ہے‘‘
(تجلیات صفدر ۹۳٫۵)
اوکاڑوی نے اس مسئلہ میں اپنے اصول کو خود ہی باطل ثابت کر دیا۔ چاروں اماموں کا اجتماعی قول اور صاحبین اور امام طحاوی وغیرہ کے اقوال کو بھی چھوڑ دیا اور ’’قوت دلیل‘‘ نہ جانے کس چیز کا نام رکھا ؟!
تنبیه:
اوکاڑوی کے باطل اصول پر مزید تبصرے کے لئے دیکھئے الحدیث حضرو: ۶۰ ص ۱۲-۱۵
ماسٹر امین اوکاڑوی اپنے بنائے ہوئے باطل اصول کے مطابق اپنے امام کی طرف منسوب اقوال کو نہ صحیح کہہ سکتا تھا نہ ضعیف تو اس مصیبت سے بچنے کے لئے اوکاڑوی نے ایک ایسی بات کہہ دی جسے پڑھ کر مجھے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد آ گئی جس کے آخری الفاظ یہ ہیں :
’’اس نے بات سچی کی ہے مگر وہ خود بڑا جھوتا ہے۔‘‘
( ترمذی مترجم مولانا محمد یحییٰ گوندلوی رحمہ الله ۳ /۲۹۷، مسند احمد ۴۲۳/۵)
چنانچہ امین اوکاڑوی نے علانیہ کہا:
’’یہ ایک بات یادرکھیں کہ جس طرح حدیث اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوتی ہے لیکن اس کو صحیح یا ضعیف محدثین ہی کہتے ہیں ۔ کسی حدیث کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح یا ضعیف نہیں کہا۔ اسی طرح آئمہ کے اقوال جو ہیں، اب کوئی یہ نہیں کہتا کہ محدثین نبی سلام پر حاکم بن گئے ہیں کہ کون ہوتا ہے بخاری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو صحیح یا ضعیف کہنے والا ، وہ قاعدوں سے بتلایا کرتا ہے۔ اسی طرح کون سا قول صحیح ہے، کس پر اعتماد ہے، کس پر اعتماد نہیں ہے وہ آئمہ اصول بتایا کرتے ہیں ۔‘‘
(فتوحات صفدر۲ /۱۷۶)
اوکاڑوی نے مزید کہا:
’’جس طرح اصولیین قاعدے سے حدیث کو صحیح یا ضعیف کہا کرتے ہیں اسی طرح اصولین یہ بتایا کرتے ہیں کہ کون سے اقوال صحیح ہیں کون سے اقوال ضعیف ہیں ۔
(فتوحات صفدر ۱۷۶/۲)
قارئین کرام! میں یہاں ایک مثال بیان کر کے اس بات کو ختم کرتا ہوں ۔ اگر کوئی اہل حدیث امام طحاوی کی کتاب سے کوئی حدیث پیش کرے اور کہے کہ امام طحاوی نے اسے صحیح کہا ہے، اور کوئی شرارتی قسم کا دیو بندی احکام شریعت اور اصول حدیث کے فرق کو نظر انداز کر کے امام طحاوی کا کوئی اور قول اہل حدیث کے خلاف پیش کر کے کہے کہ اسے بھی تسلیم کرو، ورنہ حدیث بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت کرو، تو ایسے دیو بندی کو چاہئے کہ اپنے امام کی طرف منسوب اقوال بھی اپنے امام سے ہی صحیح یا ضعیف ثابت کرے، کیونکہ آل دیوبند کے بانی محمد قاسم نانوتوی نے کہا:
’’دوسرے یہ کہ میں مقلد امام ابو حنیفہ کا ہوں، اس لئے میرے مقابلہ میں آپ جو قول بھی بطور معارضہ پیش کریں گے وہ امام ہی کا ہونا چاہئے ۔ یہ بات مجھ پر حجت نہ ہوگی کہ شامی نے یہ لکھا ہے اور صاحب در مختار نے یہ فرمایا ہے، میں اُن کا مقلد نہیں۔‘‘
(سوانح قاسمی ۲۲/۲)