وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: اللهم من ولي من امر امتي شيئا فشق عليهم فاشقق عليه [اخرجه مسلم]
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے اللہ جو شخص میری امت کے کام میں سے کسی چیز کا ذمہ دار بنا پھر اس نے ان پر مشقت ڈالی تو تو اس پر مشقت ڈال۔“ (اسے مسلم نے روایت کیا۔ )
تخریج : [مسلم، الامارة /19] دیکھیے تحفۃ الاشراف [ 477/11]
صحیح مسلم میں مکمل حدیث اس طرح ہے کہ عبدالرحمن بن شماسہ فرماتے ہیں کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی بات پوچھنے کے لئے ان کے پاس حاضر ہوا۔ انہوں نے فرمایا : تم کن لوگوں سے ہو؟ میں نے کہا: میں ایک مصری آدمی ہوں۔ فرمانے لگیں : تمہاری اس لڑائی میں تمہارا ساتھی (امیر) تمہارے لئے کیسا رہا؟ اس نے کہا: ہم نے اس کی کسی بات کو ناپسند نہیں کیا۔ اگر کسی آدمی کا اونٹ مر جاتا تو وہ اسے اونٹ دے دیتا تھا۔ غلام فوت ہو جاتا تو غلام دے دیتا تھا اور خرچ کی ضرورت ہوتی تو خرچہ دے دیتا تھا۔ فرمانے لگیں : اس نے میرے بھائی محمد بن ابی بکر کے متعلق جو کچھ کیا وہ مجھے تم سے وہ حدیث بیان کرنے سے مانع نہیں ہو سکتا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اس گھر میں بیان کرتے ہوئے سنی :
اللهم من ولي من امر امتي شيئا فشق عليهم فاشقق عليه ومن ولي من امر امتي شيئا فرفق بهم فارفق به [مسلم/ الامارة 4722]
”اے اللہ ! جو شخص میری امت کے کام میں سے کسی چیز کا ذمہ دار بنا پھر ان پر مشقت ڈالی تو تو اس پر مشقت ڈال اور جو شخص میری امت کے کام میں کسی چیز کا ذمہ دار بنا پھر ان کے ساتھ نرمی کی تو تو اس کے ساتھ نرمی کر۔ “
فوائد :
➊ اس حدیث میں مسلمانوں کے بادشاہوں، وزیروں، افسروں، ججوں، فوجی کمانڈروں، اساتذہ کرام اور کسی بھی قسم کی ذمہ داری رکھنے والوں کو مسلمانوں کے ساتھ نرمی کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور ان پر کیا کرنے اور مشقت ڈالنے سے منع فرمایا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت پر مشقت ڈالنے والے کے حق میں بددعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس پر مشقت ڈالے اور نرمی کرنے والے کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ نرمی کرے۔
امت مسلمہ پر حکمرانوں کی ڈالی ہوئی چند مشقتیں :
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مسلمان حکمرانوں نے اپنی رعایا پر بے شمار مشقتیں ڈال رکھی ہیں۔ وہ اپنی رعایا کو ملاقات کا موقع ہی نہیں دیتے لوگ روزانہ آ کر کھڑے رہ رہ کر ملاقات سے محروم واپس چلے جاتے ہیں۔ ان کی درخواستیں مہینوں بلکہ سالوں تک فائلوں میں ہی دبی رہتی ہیں۔ افسر اور کلرک اپنی خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں اور کام کے لئے آنے والوں کو ہر روز کل آنے کے لئے کہہ کر ناکام واپس بھیج دیتے ہیں۔ خواہ کوئی کتنی مصیبت میں پھنسا ہوا ہو افسر صاحب میٹنگ یا باتھ سے ہی فارغ نہیں ہوتے۔
برسراقتدار لوگ اپنی رعایا کو روزگار میں سہولت میسر کرنے کی بجائے ہر کام میں رکاوٹ ڈالتے ہیں کوئی صنعت لگانا چاہے یا کاروبار کرنا چاہے تو لائسنس کی پابندی ہے لائسنس حاصل کرنے کے لئے بے شمار محکموں کے دفتروں میں دربدر پھرنا اور افسروں کے نخرہ اٹھانا پڑتا ہے، اگر کاروبار شروع کر بیٹھیں تو مختلف ٹیکس اور اتنے ظالمانہ اور حد سے بڑھے ہوئے کہ یا وہ جھوٹ بول کر اپنی اصل آمدنی چھپا کر یا رشوت دے کر جان چھڑائیں اور اگر رشوت نہ دیں یا سچ کہیں تو اپنا تمام سرمایہ ٹیکس میں دینے اور کاروبار ختم کرنے کے باوجود گورنمنٹ کے نادہندہ اور پولیس کو مطلوب رہیں۔ حکو مت کو صرف پیسے کھانے اور اپنا اقتدار مضبوط کرنے سے غرض ہے ڈاکے مارنے والوں، دہشت گردوں قاتلوں، عزتیں لوٹنے والوں کو کھلی چھٹی ہے وہ بے شک جدید ترین اسلحہ استعمال کریں۔ مگر اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ رکھنے والوں پر لائسنس کی پابندی ہے۔ اگر لائسنس نہ لے سکیں تو صرف گھر رکھنے پر ہی لمبی قید یا پھانسی کے لئے تیار رہیں۔
اگر کسی پر ظلم کیا جائے اس کی جائیداد چھین لی جائے اور وہ انصاف کے لئے عدالت میں جانا چاہے تو حکمرانوں نے اس کے لئے اتنی مشقتیں تیار کر رکھیں ہیں کہ اگر وہ سمجھدار ہو تو عدالت کی مشقتیں برداشت کرنے کی بجائے اپنی پہلی مظلومیت پر ہی صبر شکر کر لے۔
سب سے پہلے تو وہ جس عدالت میں جا رہا ہے اس میں اللہ کے قانون جو کہ سراسر آسانی اور رحمت ہے، کی بجائے کفار کے قانون کے مطابق فیصلہ ہو گا جو کہ سراسر مشقت ہے اور فطرت کے خلاف ہے پھر اس عدالت میں وہ اپنی زبان میں اپنامدعا پیش نہیں کر سکتا۔ کیونکہ عدالت کی زبان انگریزی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ وکیل کرے اور جس کا گھر پہلے ہی لٹ چکا ہو وہ وکیل کی فیس کہاں سے لائے گا۔
پھر عدالت سے انصاف حاصل کرنے کے لئے اسے پیسے دینے پڑیں گے انصاف خریدنا پڑے گا اگر عدالت کی فیس نہیں دے سکتا تو یہ شخص انصاف کا حقدار نہیں۔
عدالت کی فیس وکیل کی فیس اور دوسرے واجبات ادا کرنے کے بعد درخواست دے کر اب اسے انتظار کرنا پڑے گا کہ اس کے مقدمے کی سماعت کب شروع ہوتی ہے۔ کبھی جج گرمیوں کی چھٹیوں پر ہے، کبھی ہفتہ وار چھٹی ہے، کبھی وکیل فارغ نہیں، کبھی جج دوسرے مقدموں میں مصروف ہے۔ لمبی مدتیں انتظار کرنے کے بعد اگر سماعت شروع ہوئی تو تاریخیں ملنی شروع ہو گئیں۔ اگر فیصلہ ہو گیا تو پھر ہائی کورٹ میں نئے سرے سے وہی چکر شروع ہو گیا اس کے بعد سپریم کورٹ کا مرحلہ باقی ہے اور ہر عدالت کے لئے نئی فیس، نیا وکیل اور انتظار کا نیا حوصلہ چاہیے۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو اس انتظار میں زندگی سے گزر جاتے ہیں
آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
اگر کوئی بے گناہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تو اسے اپنی صفائی کے لئے ان تمام مراحل سے گزرنا پڑے گا یا واقعی اس سے کوئی غلطی ہو گئی تو بجائے اس کے کہ فوراً اس کی تحقیق کر کے اسے سزا دے کر فارغ کر دیا جاتا وہ اپنی سزا سننے کے لئے سالوں تک جیل میں سڑتا رہتا ہے اور پولیس کے وہ کارندے اور عدالت کے وہ جج جن کی غفلت یا تغافل سے وہ اس عذاب میں بلاوجہ مبتلا رہا کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔
پھرصرف ملزم ہی پر مشقت کے یہ پہاڑ نہیں توڑے جاتے بلکہ اصل مشقت اس کے گھر والوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ اگر اسلام پر عمل ہوتا تو جلد از جلد فیصلہ کر کے حد لگا کر یا تعزیر لگا کر گھر بھیج دیا جاتا اب ہر جرم کے لئے چوری ہو یا کوئی اور جیل یا جرمانے کی سزا ہے۔ جو حقیقت میں اس کے لئے کم ہے اور اس کے وارثوں کے لئے زیادہ ہے ماں باپ بوڑھے ہیں کما نہیں سکتے بچے کمائی کے قابل نہیں، بیوی کو ضرورت ہے کہ خاوند اس کے پاس رہے مگر گھر کا یہ کفیل اپنی سزا سننے کے لئے جیل میں ہے یا سزا بھگتنے کے لئے نہ ماں کی خدمت کر سکتا ہے نہ بیوی کے حقوق ادا کر سکتا ہے نہ بچوں کی تربیت کر سکتا ہے نہ انہیں کما کر دے سکتا ہے۔ اگر اللہ کے دین پر عمل کرتے تو ہر ایک کے لئے بے حد آسانی تھی، جرم کی سزا دے کر اسے گھر بھیج دیا جاتا۔ مگر کفار کی تقلید میں ان سزاؤں کو وحشیانہ قرار دیا جو صرف مجرم کے لئے ہیں اور جن سے گناہ رکتے ہیں اور ایسی سزائیں نافذ کیں جن سے مجرم کا کچھ نہیں بگڑتا جیل میں رہ کر اس کا ذوق جرم مزید بڑھتا ہے اور وہ تربیت یافتہ اور عادی مجرم بن جاتا ہے۔ ماں باپ، بیوی بچوں اور صالح معاشرے سے کٹنے اور جیل میں ہونے والے ذلت آمیز سلوک کی وجہ سے وہ چڑچڑا وحشی اور خونخوار بن جاتا ہے اور اصل سزا اس کے ماں باپ بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کو ملتی ہے۔
امت مسلمہ پر نرمی کرنے کی برکات :
اگر امت اسلامیہ کے حکمران اپنی رعایا کے لئے آسانیاں پیدا کرتے۔ اپنے اور ان کے درمیان دیواریں کھڑی نہ کرتے ان پر ہونے والے ظلم کا ازالہ کرتے انہیں چوروں، ڈاکووں سے بچاتے انہیں اسلحہ کی تربیت دے کر اور اسلحہ رکھنے کی اجازت بلکہ حکم دے کر چوروں، ڈاکووں اور کفار کے مقابلے میں کھڑا کر دیتے، کاروبار میں سہولت دیتے، انہیں کفار کی یلغار سے بچانے کے لئے جہاد کرتے، ہر قسم کا ٹیکس ختم کر کے معیشت کی بنیاد زکوٰة، خراج اور غنیمت پر رکھتے، کفار کا نظام عدل جو حقیقت میں سراسر ظلم ہے ختم کر کے اسلام کا نظام عدل جو سراسر رحمت ہے نافذ کرتے تو اللہ بھی ان کے لئے بے شمار آسانیاں مہیا فرما دیتا ان کے لئے زمین و آسمان کے خزانوں کے منہ کھول دیئے جاتے، مجرموں کو جیلوں میں سڑنے کے لئے چھوڑ دینے کی بجائے اگر ان پر اللہ کی حدود نافذ کرتے تو ایک ایک حد پر اللہ کی طرف سے رزق کی وہ فراوانی اور کشادگی ہوتی جو چالیس چالیس دن تک مسلسل ہونے والی رحمت کی بارش سے بھی نہ ہوتی۔ [نسائي، ابن ماجه بحواله سلسلة الاحاديث الصحيحة 409/1]
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَـٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ [7-الأعراف:96]
” اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے بہت ہی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے کاموں کی وجہ سے پکڑ لیا۔ “
مسلم رعایا پر مشقت ڈالنے کے وبال :
مسلم ممالک کے حکمرانوں نے جب اللہ کے حکم کے برعکس اپنی رعایا پر بے حد مشقتیں ڈالیں (جن کی تھوڑی سی تفصیل اوپر گزر چکی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا کے مطابق ان پر بے شمار مشقتیں ڈال دیں۔ جن میں سے چند ایک ہی ہیں۔
(الف) وہ اپنی بداعمالیوں اور ظلم و ستم کی وجہ سے ہر وقت حکومت چھن جانے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں اور حکومت قائم رکھنے کے لئے اپنوں پر اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے یہود و نصاریٰ اور دوسرے کفار پر بھروسہ کرتے اور ان کی مدد کے محتاج رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کی ہر جائز، ناجائز فرمائش پوری کرنے پر مجبور ہیں۔
(ب) وہ جس قدر لوگوں کے مقدمات کو طول دے کر جیلوں میں بند رکھتے ہیں اور اپنے خیال کے مطابق انہیں شکنجوں میں کس کر اور بے شمار قسم کی دفعات لگا کر ان کی زندگی اجیرن کرتے ہیں اس قدر قل خونریزی، ڈاکے اور دہشت گردی میں اضافہ ہوتا اور حکمرانوں کی نا اہلی اور بے بسی نمایاں ہوتی ہے۔
(ج) وہ جس قدر ملت اسلامیہ پر ٹیکسوں اور تاوانوں کی مشقت بڑھاتے ہیں اور سود کے خونی پنجے میں جکڑتے ہیں اسی قدر دنیا بھر کے کفار کے مقروض ہوتے چلے جاتے ہیں حتیٰ کہ انہیں تنخواہیں ادا کرنے کے لئے بھی یہودیوں کے بنکوں سے سود پر روپیہ لینا پڑتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی اتنی زبردست گرفت میں پھنسے ہوئے ہیں کہ قرض لی ہوئی رقموں کا سود ادا کرنے کے لئے مزید سود پر قرض لیتے ہیں اور زمینی اور آسانی برکا ت کی بجائے اپنے اوپر سے آفات کا نشانہ بنے ہوتے ہیں۔
کاش یہ حکمران امت پر آسانی اور اس کے ساتھ نرمی کرتے تو اللہ تعالیٰ بھی ان کے لئے آسانی مہیا فرماتا اور ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کرتا۔
حدیث میں مذکور امیر اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی سے اس کا سلوک :
اس حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہا نے عبدالرحمٰن بن شماسہ سے جس امیر کے متعلق پوچھا: تھا وہ معاویہ بن حد یج رضی اللہ عنہ صحابی تھے جن کی امارت میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بلاد مغرب میں کفار سے کئی جنگیں لڑی گئیں اور ان جنگوں میں انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیا تھا۔ [اعلام النبلاء3/37-38 ]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے مصر کے حاکم تھے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے ان سے مصر چھیننے کے لئے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ فوج بھیجی تھی۔ انہوں نے معاویہ بن حدیج کو محمد بن ابی بکر سے لڑنے کے لئے بھیجا۔ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے مقابلہ کیا، مگر ان کے ساتھی انہیں چھوڑ کر بکھر گئے محمد اکیلے ایک کھنڈر میں چھپ گئے، مگر آخر کار پکڑے گئے اور معاویہ بن حدیج نے انہیں قتل کر دیا۔ تفصیلات کے لئے دیکھئے : [البدايه و النهابه 326/7]
عائشہ رضی اللہ عنہا کا انصاف اور حدیث پہنچانے کا جذبہ :
اس حدیث سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا کمال تقویٰ اور انصاف بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی کے قاتل کی اچھی صفت سن کر اس کی فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو چھپایا نہیں بلکہ اپنی دلی کیفیت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان امت تک پہنچا دیا۔ علاوہ ازیں اس سے ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا حدیث رسول کو امت تک پہنچانے کا زبردست جذبہ اور اس کا اہتمام بھی صاف ظاہر ہے۔