اسلامی قانون اور اجتہاد کا تسلسل
اسلامی قانون کے بارے میں یہ تصور کہ بعد کے ادوار میں اجتہاد رک گیا، عام ہے۔ اس کے برعکس، امام ابو حنیفہ اور دیگر ائمہ کی عظیم خدمات اور ان کے بعد آنے والے فقہاء کی جدوجہد اس تاثر کو غلط ثابت کرتی ہیں۔ اسی حوالے سے امام سرخسی (رحمۃ اللہ علیہ) کی زندگی اور علمی خدمات ایک روشن مثال ہیں۔
امام سرخسی کا تعارف
پیدائش اور ابتدائی زندگی:
امام شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل السرخسی کی پیدائش پانچویں صدی ہجری کے آغاز (400ھ/1100ء) میں ہوئی۔ ان کا تعلق سرخس نامی علاقے سے تھا، جو موجودہ ترکمانستان میں ایران کی سرحد کے قریب واقع ہے۔
اساتذہ اور شاگرد:
امام سرخسی کے مشہور اساتذہ میں شمس الائمہ عبد العزیز الحلوانی شامل ہیں، جنہوں نے 448ھ/1056ء میں وفات پائی۔ ان کے شاگردوں میں امام مرغینانی (مصنفِ ہدایہ) کے نانا ابو حفص عمر بن حبیب کا نام نمایاں ہے۔
تعلیم و تدریس:
ابتدائی طور پر امام سرخسی حلب میں "حلویہ” مدرسے میں اسلامی قانون پڑھاتے رہے۔ اسی مدرسے میں بعد کی نسلوں میں امام کاسانی (مصنفِ بدائع الصنائع) نے بھی تدریس کی۔
قید و بند کی آزمائش
وجہ قید:
اپنی عمر کے آخری حصے میں امام سرخسی فرغانہ میں اسلامی قانون کی تدریس کر رہے تھے۔ اس دوران ایک فتویٰ پر مقامی حکمران نے ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ فتویٰ واپس لیں، لیکن امام سرخسی نے انکار کیا۔ اس پر انہیں ایک قلعے کے کنویں میں قید کر دیا گیا۔ یہ قید 466ھ (1074ء) سے 480ھ (1088ء) تک جاری رہی۔
صبر و استقامت:
چودہ سال کی قید کے باوجود امام سرخسی نے نہ صرف اپنا موقف برقرار رکھا بلکہ اپنی علمی جدوجہد کو جاری رکھا۔ ان کی اس قربانی سے ان کے اخلاص اور تقویٰ کی جھلک ملتی ہے۔
قید کے دوران علمی خدمات
امام سرخسی نے قید کے دوران اسلامی قانون کے حوالے سے ایسی خدمات انجام دیں جن کی مثال ملنا مشکل ہے:
کتاب المبسوط:
امام سرخسی نے فقہ حنفی کے متن "الکافی” کی شرح "المبسوط” کے نام سے لکھوائی۔ یہ تیس جلدوں پر مشتمل ہے اور اسلامی قانون کے اصولوں کی وضاحت کا ایک عظیم شاہکار ہے۔
اصول السرخسی:
قید میں رہتے ہوئے انہوں نے اصول فقہ پر "تمہید الفصول فی الاصول” نامی کتاب مرتب کروائی، جو دو جلدوں میں شائع ہوتی ہے۔ یہ کتاب "اصول السرخسی” کے نام سے مشہور ہے۔
شرح السیر الکبیر:
امام محمد کی کتاب "السیر الکبیر”، جو جہاد کے متعلق اسلامی قانون کی سب سے تفصیلی کتاب ہے، پر امام سرخسی نے پانچ جلدوں میں شرح لکھی۔
امام سرخسی کی دعا اور قربانی کا پیغام
قید کے دوران امام سرخسی نے اللہ تعالیٰ سے بہت پراثر دعا کی، جو ان کے اخلاص اور توکل کی گواہی دیتی ہے۔ وہ ہر طرح کی مشکلات کے باوجود حق کے لیے قربانی دینے پر آمادہ رہے۔ ان کی یہ دعا ان کے علمی سفر کا اختتام ہے:
انتهى شرح السير الصغير ، المشتمل على معني اثير ، باملاء المتكلم بالحق المنير ، المحصور لاجله شبه الاسير ، المنتظر للفرج من العالم القدير السميع البصير…
شرح السیر الصغیر کا بیان ختم ہوا، جو ایک محبوب و اہم معنی پر مشتمل ہے، حق روشن کے بیان سے اخذ شدہ، جو ایک قیدی کی طرح محدود ہے، اور اس کے لیے اس قادر، سننے والے اور دیکھنے والے عالم سے کشادگی کا منتظر ہے۔
خلاصہ
امام سرخسی (رحمۃ اللہ علیہ) کی زندگی اور علمی خدمات اجتہاد کی تسلسل کی ایک روشن مثال ہیں۔ ان کی قربانیاں اور علمی کاوشیں آج کے اجتہاد کے علم برداروں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کا صبر، استقامت اور علمی جدو جہد ہم سب کے لیے ایک سبق ہے۔