امام زہری پر مستشرقین کے اعتراضات کا تحقیقی رد

حدیث کی کتابت اور تدوین

یہ بات تقریباً متفق علیہ ہے کہ حدیث کی کتابت اور حفظ کا آغاز عہدِ نبوی سے ہوا۔ کئی صحابہ کرام کے صحیفے اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ لیکن تدوین حدیث کا باضابطہ آغاز حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں ہوا۔ اس اہم کام میں مختلف علاقوں کے کئی اہلِ علم اور ثقہ شخصیات نے حصہ لیا، لیکن امام زہریؒ کی خدمات غیرمعمولی رہیں۔

مستشرقین کے اعتراضات کا پس منظر

مستشرقین نے امام زہری پر اعتراضات اس لیے کیے تاکہ حدیثِ نبوی کی بنیاد کو متزلزل کرکے دینِ اسلام کو ناقابلِ اعتماد ثابت کیا جائے۔ مشہور مستشرق گولڈزیہر نے پہلا اعتراض یہ کیا کہ "حدیث اموی خلفاء کے دور کی ایجاد ہے”۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اموی اور علوی گروہوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے ہر گروہ نے اپنے حق میں حدیثیں گھڑیں اور حکمرانوں نے انہیں سرپرستی دی۔ اس نے حضرت معاویہؓ کے حوالے سے من گھڑت باتیں بھی شامل کیں۔

امام زہری پر اعتراضات اور ان کا تجزیہ

1. بنو امیہ کی سرپرستی کا الزام:

گولڈزیہر نے یہ دعویٰ کیا کہ امام زہری کو بنو امیہ نے خریدا اور ان سے جھوٹی حدیثیں گڑھوائیں۔ خاص طور پر عبدالملک بن مروان کے متعلق کہا گیا کہ اس نے امام زہری کو قبۃ الصخرہ کی فضیلت کے بارے میں حدیث گھڑنے پر آمادہ کیا۔ بطور دلیل حدیثِ مساجد کو پیش کیا گیا:

"لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِي هَذَا، وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى” (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2383)
"سواریوں کو صرف تین مساجد کی طرف باندھا جاتا ہے: میری یہ مسجد (مسجد نبوی)، مسجد حرام، اور مسجد اقصیٰ۔”

جواب:

  • حدیثِ مساجد کو امام زہری نے حضرت سعید بن مسیب سے روایت کیا، اور یہ روایت بخاری، مسلم، اور دیگر کتبِ حدیث میں کئی مختلف اسناد کے ساتھ موجود ہے۔
  • یہ دعویٰ کہ حدیث کا یہ متن صرف امام زہری سے مروی ہے، علمی غلطی ہے۔ امام زہری کے علاوہ یہ روایت حضرت ابوسعید خدریؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے بھی مروی ہے۔

2. امام زہری کی کتابتِ حدیث پر اعتراض:

مستشرقین نے ایک قصہ نقل کیا کہ ابراہیم بن الولید نے ایک صحیفہ امام زہری کو پیش کیا، جس میں اپنی مرضی کی حدیثیں شامل کی گئیں، اور امام زہری نے ان پر بغیر تحقیق کے روایت کی اجازت دی۔

جواب:

  • یہ اعتراض اصولِ حدیث کے خلاف ہے۔ حدیث کے اصول کے مطابق "مناولہ” (کسی کو تحریر دے کر اجازت دینا) ایک تسلیم شدہ طریقہ ہے۔
  • ابراہیم بن الولید کا امام زہری سے سماع ثابت ہے، لیکن ان سے منسوب کسی صحیفے کی احادیث ذخیرۂ حدیث میں موجود نہیں۔ یہ محض مفروضہ ہے۔

3. امام زہری پر اموی حکمرانوں کے دباؤ کا الزام:

مستشرقین نے امام زہری کے ایک قول کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا:

"أَكْرَهْنَا هَؤُلَاءِ الْأُمَرَاءَ عَلَى أَنْ نَكْتُبَ أَحَادِيْثَ” یعنی "ان حکمرانوں نے ہمیں حدیثیں لکھنے پر مجبور کیا۔”

جواب:

  • اصل سیاق و سباق یہ ہے کہ امام زہری ابتدا میں حدیث کی کتابت کے مخالف تھے اور حفظ پر زور دیتے تھے۔ لیکن جب خلفاء نے اس بات پر اصرار کیا تو انہوں نے کتابتِ حدیث شروع کی اور اعلان کیا کہ یہ مجبوری کے تحت کیا جا رہا ہے۔
  • اس جملے کا مطلب یہ نہیں کہ امام زہری سے جھوٹی حدیثیں گڑھوائی گئیں، بلکہ یہ ان کے علمی طرزِ عمل کی تبدیلی کا اظہار ہے۔

4. حدیث کی اسناد کا آغاز:

مستشرقین نے دعویٰ کیا کہ اسناد کا سلسلہ امام زہری سے شروع ہوا اور یہ 126 ہجری کے بعد کا واقعہ ہے۔

جواب:

  • اسناد کا سلسلہ صحابہ کرام کے زمانے سے جاری تھا۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب فتنوں نے جنم لیا تو سند کی چھان بین زیادہ ضروری ہوگئی۔
  • امام زہری اسناد کی تحقیق کے بانیوں میں سے ضرور ہیں، لیکن اسناد کا آغاز ان سے بہت پہلے ہو چکا تھا۔

امام زہری کی علمی خدمات

  • تدوین حدیث: حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے حکم پر امام زہری نے احادیث کو باقاعدہ طور پر مدون کیا۔ آپ حدیث کی تدوین کے اولین معماروں میں شمار ہوتے ہیں۔
  • حدیث کی اسناد کا اہتمام: امام زہری وہ پہلے محدث ہیں جنہوں نے روایت حدیث کے لیے اسناد کا باقاعدہ نظام متعارف کرایا اور اس پر زور دیا۔
  • ذخیرۂ حدیث میں منفرد روایات: امام مسلم نے بیان کیا کہ امام زہری کی تقریباً 90 احادیث ایسی ہیں جن کی روایت میں وہ منفرد ہیں۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 3107)
  • علمی انہماک اور حافظہ: امام زہری کا حافظہ غیرمعمولی تھا۔ ایک موقع پر انہوں نے عبدالملک کے خط کو دو بار لفظ بہ لفظ دہرایا، گویا وہ خط ان کے سامنے موجود ہو۔

معاصرین اور علماء کی آراء

علماء جرح و تعدیل کی آراء:

  • حافظ ابن حجر: "فقیہ اور حافظ ہیں۔ ان کی عظمت اور حفظِ حدیث پر تمام محدثین متفق ہیں۔” (تقریب التہذیب، رقم: 6296)
  • امام احمد بن حنبل: "امام زہری احادیث میں سب سے افضل اور سند کے لحاظ سے سب سے عمدہ ہیں۔”
  • امام مالک: "زہری اپنی مثال آپ ہیں۔”
  • امام لیث بن سعد: "میں نے ان سے بڑا جامع العلوم عالم نہیں دیکھا۔”
  • سفیان ثوری: "زہری اہل مدینہ کے سب سے بڑے عالم ہیں۔”

امام زہری کی دیانت اور تقویٰ:

امام زہری دنیاوی مال و متاع کے خواہش مند نہ تھے۔ آپ کے متعلق کہا گیا کہ "درہم و دینار ان کے نزدیک مینگنی کے برابر تھے۔” (السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی: 209)

قبۃ الصخرہ کے حوالے سے اعتراض کا جواب:

  • مؤرخین (ابن عساکر، طبری، ابن اثیر، ابن خلدون) نے قبۃ الصخرہ کی تعمیر کو عبدالملک بن مروان کے بجائے ان کے بیٹے ولید بن عبدالملک کی طرف منسوب کیا ہے۔
  • حدیث "لا تشد الرحال…” میں قبۃ الصخرہ کا کوئی ذکر موجود نہیں، اور یہ دعویٰ کہ امام زہری نے اسے عبدالملک کے کہنے پر گھڑا، تاریخی طور پر بے بنیاد ہے۔

نتیجہ: امام زہری پر اعتراضات بے بنیاد ہیں

امام زہریؒ اسلام کے عظیم محدث اور دین کے خادم تھے۔ ان پر مستشرقین کے اعتراضات دراصل حدیث کے ذخیرے کو مشکوک بنانے کی ناکام کوشش ہیں۔ امام زہری کی علمی دیانت اور جراتِ ایمانی اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ وہ کسی بھی دنیوی دباؤ یا لالچ کے زیر اثر نہیں آئے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1