امام احمد بن حنبل کا ورع اور مصنوعی بالوں کی ممانعت

اسلامی تعلیمات اور ظاہری زینت

اسلامی تعلیمات میں ہر عمل کو شریعت کے اصولوں کے مطابق انجام دینے کی تاکید کی گئی ہے۔ خاص طور پر وہ اعمال جن کا تعلق ظاہری خوبصورتی اور زینت سے ہو، ان میں شریعت کی رہنمائی کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم مسئلہ خواتین کے بالوں میں مصنوعی لٹیں یا وگ لگانے کا ہے، جسے اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے۔ اس مضمون میں ہم امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ورع اور اس مسئلے پر ان کے مؤقف کو تفصیل سے بیان کریں گے، جو کہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں واضح ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا واقعہ

امام ابو بکر المروذی (١٧٥ھ) بیان کرتے ہیں کہ وہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (٢٤١ھ) کے پاس گئے اور دیکھا کہ ایک عورت ان کی بیٹی کے بال سنوار رہی ہے۔ انہوں نے اس عورت سے پوچھا:
"کیا تم نے اس کے بالوں میں قرامل (بالوں کو زیادہ کرنے کے لیے مصنوعی لٹیں) لگائی ہیں؟”
تو عورت نے جواب دیا:
"بچی مجھے نہیں لگانے دے رہی۔ وہ کہتی ہے کہ میرے بابا نے مجھے منع کیا ہے اور اس سے میرے بابا ناراض ہوں گے۔”
(الورع للمروذی: ٥٩٧)
یہ واقعہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ورع اور تقویٰ کی بہترین مثال ہے، جہاں انہوں نے اپنی بیٹی کو مصنوعی بال لگانے سے منع کیا، کیونکہ یہ عمل شریعت کی تعلیمات کے خلاف تھا۔

احادیث مبارکہ میں مصنوعی بال لگانے کی ممانعت

رسول اللہ نے واضح طور پر مصنوعی بال لگانے اور لگوانے والی خواتین پر لعنت فرمائی ہے۔ درج ذیل احادیث اس مسئلے پر روشنی ڈالتی ہیں:

  • سیدنا ابو ہریرہ، سیدنا عبد اللہ بن عمر اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:
    «لَعَنَ اللَّهُ الوَاصِلَةَ وَالمُسْتَوْصِلَةَ»
    "سر کے قدرتی بالوں میں مصنوعی بال لگانے والیوں پر اور لگوانے والیوں پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔”
    (صحیح البخاری: ٥٩٣٣، ٥٩٣٧، ٥٩٣٤)
  • سیدہ اسماء بنت ابی بکر، سیدنا عبد اللہ بن عمر اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں:
    «لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الوَاصِلَةَ وَالمُسْتَوْصِلَةَ»
    "نبی کریم ﷺ نے بالوں کے ساتھ مصنوعی بال لگانے اور لگوانے والیوں پر لعنت کی ہے۔”
    (صحیح البخاری: ٥٩٣٦، ٥٩٤٧، ٤٨٨٧؛ سنن النسائي: ٣٤١٦)
  • سیدنا جابر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
    «زَجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَصِلَ الْمَرْأَةُ بِرَأْسِهَا شَيْئًا»
    "نبی کریم ﷺ نے سختی سے منع فرمایا کہ کوئی عورت اپنے سر کے بالوں کے ساتھ کوئی چیز (یعنی وِگ وغیرہ) لگائے۔”
    (صحیح مسلم: ٢١٢٦)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا فتویٰ

امام ابو بکر المروذی رحمہ اللہ مزید بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت، جو خواتین کے سر کے بالوں کے ساتھ مصنوعی بال جوڑتی تھی، امام احمد رحمہ اللہ کے پاس آئی اور پوچھا:
"میں عورتوں کے سر کے بالوں کے ساتھ مصنوعی بال جوڑتی ہوں اور ان کے بال بناتی ہوں۔ کیا آپ کے نزدیک میری اس کمائی سے حج کرنا درست ہوگا؟”
امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا:
"نہیں۔ حج ایسے مال سے ہونا چاہیے جو اس سے زیادہ پاکیزہ ہو۔”
(الورع للمروذی: ٥٩٢)

خلاصہ

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہر عمل کو شریعت کی روشنی میں پرکھنا چاہیے۔ رسول اللہ کی واضح احادیث کی موجودگی میں مصنوعی بال لگانا یا لگوانا ایک ایسا عمل ہے جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ یہ نہ صرف گناہ کا باعث بنتا ہے بلکہ انسان کی کمائی اور عبادات کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق گزاریں اور ایسے اعمال سے بچیں جو شریعت میں ممنوع قرار دیے گئے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے