الکوحل کی خریدوفروخت کا حکم
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

کولون (یہ عرقیات، الکوحل اور پانی کا ایک مخلوط محلول ہوتا ہے جو پرفیوم بنانے میں استمعال ہوتا ہے) کی خرید و فروخت کا حکم
اولا: بالذات کولون کے متعلق تحقیق کی جائے گی کہ آیا یہ فروخت بھی ہوتا ہے کہ نہیں؟ کیونکہ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی خرید و فروخت نہیں ہوتی، اگر یہ بطور شربت استعمال ہو اور اس میں کوئی نشہ پیدا کر دینے والی چیز ہو تو ظاہر یہی ہے کہ اس کی بیع حرام ہے اور برائی کا دروازہ بند کرنے کے لیے اس سے منع کرنا واجب اور لازم ہے لیکن اگر یہ فرض کیا جائے کہ اس میں کوئی فائدہ ہے اور انسان اسے بیچ دے اور اسے علم نہ ہو کہ خریدار اس کے ساتھ کیا کرے گا تو اس کو گناہ نہیں ہوگا لیکن اگر اس کو علم ہو کہ یہ شخص یا نوجوان اس کو نشے کے لیے استعمال کرے گا تو ایسے شخص کے لیے اسے بیچناجائز نہیں کیونکہ ایسی حالت میں اس کو علم ہے کہ وہ گناہ اور زیادتی کے کام میں تعاون کر رہا ہے، لہٰذا یہ اس کے لیے جائز نہیں۔
جب یہ معلوم ہو جائے کہ یہ شخص ایسے افراد کو یہ بیچ رہا ہے تو حکام کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس شخص کو سزا دیں جو اسے ایسے شخص کو فروخت کرتا ہے جس کے متعلق اس کو علم ہوتا ہے کہ وہ اس کو غلط کام میں استعمال کرے گا، اور اس کو واضح کر دینا چاہیے کہ اس کی ا جازت صرف اس کے لیے ہے جو اسے اچھے کام میں استعمال کرے، تاہم اس کا استعمال نہیں کرنا چاہیے، اگر اس میں کوئی نشہ آور چیز ہو اس سپرٹ بھی ہوتا ہے جس کا نقصان اور نشہ پیدا کرنا بالکل واضح ہے، لہٰذا اس کا استعمال جائز نہیں اور اس سے بچنا چاہیے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوى و المقالات: 44/19]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل