اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہونے کا شرعی مفہوم

سوال

کیا صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب از فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ

راجح موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھوں کے بارے میں احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ قرآن و سنت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کا ذکر دائیں اور بائیں کے حوالے سے موجود ہے، اور یہ بھی ذکر ہے کہ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ ان دونوں اقوال کے درمیان تطبیق درج ذیل ہے:

بطورِ نام دائیں اور بائیں:

اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھوں کو دائیں اور بائیں کے طور پر متصف کیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں ذکر ہے۔

برکت اور فضیلت کے اعتبار سے دونوں دائیں ہیں:

اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ مخلوق کے دائیں اور بائیں ہاتھ کی طرح نہیں ہیں۔ مخلوق میں بایاں ہاتھ دائیں کے مقابلے میں کم درجہ رکھتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ شرف، فضل اور برکت کے اعتبار سے برابر اور دائیں ہیں۔

وضاحت

شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’تمام احادیث اہل سنت کے ہاں صحیح ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے، الحمدللہ۔ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں اور بائیں کے طور پر متصف ہیں جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ذکر ہے، اور دونوں ہاتھ شرف و فضل کے اعتبار سے دائیں ہیں جیسا کہ دیگر صحیح احادیث میں موجود ہے۔‘‘
(مجموع فتاویٰ شیخ ابن باز، 25/126)

عربی عبارت کا مفہوم

"والراجح أنه لا تعارض بين الأحاديث، فالله سبحانه وتعالى توصف يداه باليمين والشمال باعتبار الاسم، أما من جهة المعنى، فكلاهما يمين مباركة۔”

ترجمہ:

راجح بات یہ ہے کہ احادیث کے درمیان کوئی تعارض نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ دائیں اور بائیں کے طور پر متصف ہیں بطورِ نام، جبکہ برکت اور شرف کے اعتبار سے دونوں دائیں ہیں۔

نتیجہ

احادیث کے مطابق اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھوں کا ذکر دائیں اور بائیں کے نام سے ہے، لیکن ان کا معنی مخلوق کی مانند نہیں ہے۔ شرف، فضل اور برکت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے