سوال
قرآن مجید میں موجود آیت "وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ” (اور جسے اللہ گمراہ کرے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں) کا کیا مطلب ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ گمراہ کرتا ہے؟ اگر ہاں، تو کیا لوگ مجبور نہیں ہوں گے؟
جواب
یہ سوال تقدیر اور اللہ کی حکمت کے بارے میں ہے، اور ہمیں چاہیے کہ ایسے سوالات سے حتی الامکان اجتناب کریں۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے اور اس سے کوئی سوال نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیک عمل کرنے کا حکم دیا اور اسے عقل و شعور کی دولت سے نوازا ہے تاکہ وہ خیر و شر میں فرق کر سکے۔ انسان اپنی تقدیر سے بے خبر ہے، اور گناہ کرنے پر تقدیر کو دلیل بنانا درست نہیں۔
اللہ کی مشیئت اور گمراہی
کائنات میں ہر عمل—چاہے وہ اچھا ہو یا برا—اللہ تعالیٰ کی مشیئت اور اذن کے بغیر وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ یہ بات ناممکن ہے کہ کوئی کام اللہ کی مرضی کے بغیر ہو جائے، تاہم اللہ نیکی کو پسند کرتا ہے اور برائی کو ناپسند۔ مشرکین مکہ اپنے شرک کو تقدیر کا نتیجہ قرار دیتے تھے، لیکن اللہ نے ان کے اس دعوے کو مسترد کیا۔
اللہ کا ارشاد ہے: "اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے آباء و اجداد شرک نہ کرتے”(الانعام: 148)۔
اسی طرح، ایک اور جگہ فرمایا گیا:”اگر رحمٰن چاہتا تو ہم ان بتوں کی عبادت نہ کرتے”(الزخرف: 20)۔
اس کے باوجود، اللہ تعالیٰ نے انہیں مشرک قرار دیا اور ان کے اس دعوے کو رد کیا۔
تقدیر کے مختلف نظریات
اسلام میں تقدیر کے بارے میں تین مختلف نظریات پائے جاتے ہیں:
➊ جبریہ کا عقیدہ: اس عقیدے کے مطابق انسان اپنے اعمال میں بالکل مجبور ہے اور جو کچھ کرتا ہے، وہ تقدیر کی وجہ سے کرتا ہے۔
نتیجہ: انسان اپنے اعمال کا جواب دہ نہیں ہوتا۔
➋ قدریہ کا عقیدہ: اس عقیدے کے مطابق انسان اپنے ہر عمل میں آزاد ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے، اپنی مرضی سے کرتا ہے۔
نتیجہ: انسان اپنے ہر عمل کا جواب دہ ہے۔
➌ معتدل عقیدہ: اشاعرہ اور ماتریدیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان کچھ اعمال میں مجبور اور کچھ میں مختار ہوتا ہے۔
نتیجہ: انسان انہی اعمال کا جواب دہ ہے جو وہ اپنی مرضی سے کرتا ہے۔
خلاصہ
اللہ تعالیٰ کی گمراہی کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہدایت اور گمراہی کے فیصلے اپنی حکمت کے مطابق کرتا ہے۔ انسان کو نیک عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ اپنی عقل و فہم کی بنیاد پر خیر و شر میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔