اللہ کی معیت اور قربت کا صحیح مفہوم قرآن و سنت کی روشنی میں
ماخوذ : فتاوی علمیہ، جلد1۔ كتاب العقائد۔ صفحہ31

سوال:

اہل حدیث اللہ کو عرش پر مانتے ہیں اور "مَعَكُمْ” اور "إِنِّي قَرِيبٌ” کی وضاحت میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد اللہ کا علم، قدرت، سماعت اور بصارت ہے۔ کیا یہ تاویل نہیں؟ بعض سعودی علماء، جیسے شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ اور بعض پاکستانی سلفی علماء کا کہنا ہے کہ "ہم ‘استواء’ کو بلاکیف مانتے ہیں، اسی طرح ‘معیت’ اور ‘قربت’ کو بھی بلاکیف مانتے ہیں، کیونکہ اللہ کی صفات اس کی شان کے لائق ہیں۔” کیا یہ موقف درست ہے؟

جواب:

الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!

قرآن اور سلف صالحین کی وضاحت

➊ مقاتل بن حیان رحمہ اللہ کی تفسیر:
مفسر مقاتل بن حیان رحمہ اللہ "وَهُوَ مَعَهُمْ” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"علمه” (الاسماء والصفات للبیہقی، ص431، نسخہ ص 542، سندہ حسن)
ترجمہ: "یہاں ‘معیت’ سے مراد اللہ کا علم ہے۔”

➋ ضحاک بن مزاحم رحمہ اللہ کی وضاحت:
مفسر ضحاک بن مزاحم رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا:
"وعلمه مَعَهُمْ” (تفسیر طبری، ج28، ص10، سند حسن)
ترجمہ: "اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے۔”

➌ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی وضاحت:
مفسر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
"هو فوق العرش ، وعلمه معهم” (تفسیر ابن ابی حاتم بحوالہ شرح حدیث النزول لابن تیمیہ، ص126)
ترجمہ: "وہ (اللہ) عرش پر ہے اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے۔”

یہ روایت بکیر بن معروف کے ذریعے منقول ہے، جو حسن الحدیث تھے۔ امام نسائی رحمہ اللہ اور جمہور محدثین نے ان کی توثیق کی ہے۔

➍ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی وضاحت:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے "هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا” کی تشریح میں فرمایا:
"علمه” (شرح حدیث النزول، ص127، نقلًا عن کتاب السنۃ لحنبل بن اسحاق)
ترجمہ: "یہاں ‘معیت’ سے مراد اللہ کا علم ہے۔”

➎ اجماع صحابہ و تابعین:
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"وقد ثبت عن السلف أنهم قالوا : هو معهم بعلمه . وقد ذكر ابن عبد البر وغيره أن هذا إجماع من الصحابة والتابعين لهم بإحسان، ولم يخالفهم فيه أحد يعتمد بقوله”
(شرح حدیث النزول، ص126)
ترجمہ: "سلف صالحین سے ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ‘وہ (اللہ) اپنے علم کے ساتھ ان کے ساتھ ہے۔’ اور ابن عبدالبر رحمہ اللہ وغیرہ نے صحابہ و تابعین کے اجماع کو نقل کیا ہے کہ کسی بھی معتبر شخصیت نے اس کی مخالفت نہیں کی۔”

یہ بات واضح ہے کہ اجماع شرعی حجت ہوتا ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب "الرسالۃ” اور حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کی "الاحکام” کا مطالعہ مفید رہے گا۔

کیا "معیت” اور "قربت” کی وضاحت تاویل ہے؟

یہ تاویل نہیں بلکہ لغوی اور شرعی مفہوم ہے، کیونکہ:

◄ عربی زبان میں "معیت” کے مختلف معانی ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے:
"أذهب أنا معك” (ترجمہ: میں تمہارے ساتھ جا رہا ہوں۔)
اس جملے میں "معیت” جسمانی قربت کے لیے استعمال ہوئی ہے، لیکن جب اللہ تعالیٰ کے لیے "معیت” کا ذکر آتا ہے، تو سلف صالحین نے اس کا مفہوم "علم و قدرت” بیان کیا ہے، کیونکہ اللہ جسمانی حدود سے پاک ہے۔

◄ یہی بات امام احمد بن حنبل، ابن عباس، مقاتل بن حیان، اور دیگر مفسرین نے بیان کی ہے۔

کیا اہل حدیث "بلاکیف” کا نظریہ رکھتے ہیں؟

جی ہاں! اہل حدیث اور سلف صالحین کا یہی عقیدہ ہے کہ:

➊ اللہ کی صفات بلاکیف ہیں، کیونکہ اللہ کی ذات لا محدود ہے۔
➋ جیسے "استواء” بلاکیف مانتے ہیں، ویسے ہی "معیت” اور "قربت” بھی بلاکیف مانتے ہیں۔
➌ اللہ کی صفات جیسی اس کی شان کے لائق ہیں، ویسے ہی ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں، بغیر کسی تاویل اور بغیر کسی تشبیہ کے۔

یہی موقف شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ اور دیگر سلفی علماء کا ہے۔

جو لوگ "معیت” کو علم و قدرت کے علاوہ کوئی علیحدہ صفت سمجھتے ہیں؟

جو لوگ "مَعَكُمْ” کو علم و قدرت کے علاوہ کوئی علیحدہ صفت سمجھتے ہیں، وہ اجماع صحابہ، تابعین اور سلف صالحین کے مخالف ہیں، اس لیے ان کا قول مردود ہے۔

(ماہنامہ شہادت، فروری 2003ء)

نتیجہ:

◈ "معیت” اور "قربت” سے مراد اللہ کا علم، قدرت، سماعت اور بصارت ہے، جیسا کہ صحابہ، تابعین، اور جمہور محدثین نے وضاحت کی ہے۔
◈ یہ تاویل نہیں بلکہ سلف صالحین کا متفقہ نظریہ ہے، جو کتاب و سنت سے ثابت ہے۔
◈ اجماع صحابہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو لوگ اللہ کے ساتھ ہونے کو علم و قدرت سے ہٹ کر کوئی اور مفہوم دیتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔
◈ "اللہ عرش پر مستوی ہے اور اپنے علم و قدرت کے ساتھ ہر جگہ حاضر ہے”— یہی اہل حدیث اور سلف صالحین کا نظریہ ہے۔

واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1