"میرا جسم، خدا کی مرضی” اور اسلامی نقطۂ نظر
بعض لوگ اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ "میرا جسم، خدا کی مرضی” کا نعرہ اس لیے غلط قرار نہیں دیا جا سکتا کہ خدا کی مرضی کا تعین اکثر مرد ہی کرتے ہیں۔ بظاہر یہ اعتراض خوشنما لگتا ہے، لیکن اگر اس پر غور کیا جائے تو اس میں موجود کفر اور الحاد کو پہچاننا مشکل نہیں۔ یہ اعتراض بالکل اسی نوعیت کا ہے جیسا کہ کچھ عرصہ قبل ایک لبرل دوست نے کہا تھا کہ "خدا خود آ کر اپنی مرضی بتائے تو مانوں گا”۔
یہ وہی بات ہے جو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی:
"لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً”
(ہم ہرگز تم پر ایمان نہیں لائیں گے، جب تک کہ ہم اللہ کو علانیہ نہ دیکھ لیں)
(البقرہ: 55)
❖ مسلمان کی حیثیت سے سوال کا مقام
ان اعتراضات کرنے والے افراد سے عرض ہے کہ سب سے پہلے یہ طے کریں کہ وہ یہ سوال کس مقام سے کر رہے ہیں؟
- مسلمان کی حیثیت سے؟
- یا اسلام سے باہر کھڑے ہو کر ایک غیر جانبدار نقطۂ نظر سے؟
اگر اعتراض کرنے والا اسلام سے باہر کھڑا ہو کر بات کر رہا ہے، تو بحث کا زاویہ مختلف ہوگا۔ لیکن اگر وہ مسلمان کی حیثیت سے یہ سوال کر رہا ہے، تو یہ اعتراض ہی بے بنیاد ہے۔
❖ مسلمان کا عقیدہ کیا ہے؟
ایک مسلمان اس بات پر ایمان رکھتا ہے:
- حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں جن کے ذریعے اللہ نے اپنی مرضی واضح طور پر بیان کر دی ہے۔
- آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا۔
- قیامت تک اللہ کی مرضی قرآن و سنت کے ذریعے واضح رہے گی، جس کے متعلق فرمایا گیا ہے:
"لیلھا کنھارھا” (یعنی اس کی رات دن کی طرح روشن ہے)۔
لہٰذا، ایک مسلمان کے لیے یہ ماننے کی گنجائش نہیں ہے کہ اللہ کی مرضی پوشیدہ یا غیر واضح ہو گئی ہے۔ غلطی اگر ہوتی ہے تو وہ انسانوں کے فہم میں ہوتی ہے، لیکن مجموعی طور پر امت کبھی اللہ کے قانون کے سمجھنے میں گمراہ نہیں ہو سکتی۔
❖ غیر جانبداری کا فیشن
اگر کسی کو محض فیشن کے طور پر غیر جانبداری اور معروضیت دکھانے کی مجبوری ہے، تو پھر بات صرف اس نکتے تک محدود نہیں رہے گی کہ اللہ کی مرضی کا اظہار کیسے ہوتا ہے، بلکہ یہ سوال بھی اٹھے گا کہ:
- کیا اللہ کی مرضی انسانوں کے معاملات سے متعلق ہے بھی یا نہیں؟
یہ نکتہ واضح کرتا ہے کہ اگر بات کو طول دیا جائے، تو بحث دور تک جائے گی۔