اللہ کی قدرت: ہدایت و گمراہی کا حقیقی مفہوم

اعتراض

آیت "اللہ جس کو گمراہ کردے، اس کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا”

جواب

اس اعتراض کا سادہ ترین جواب یہ ہے کہ ایسی آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت کا ذکر ہے، نہ کہ اُس کی سنت اور قانون کا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے، تو اس کے ارادے کو کوئی بدل نہیں سکتا۔

اس بات کو سورہ بقرہ میں بیان کردہ ایک آیت سے سمجھا جا سکتا ہے، جہاں کہا گیا ہے:

"ماھم بضارین بہ من احد الا باذن اللہ”
(ترجمہ: "اپنے جادو منتر سے وہ کسی کو اللہ کے اذن کے بغیر نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے”)۔

اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جادو اور منتر کی تاثیر اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جادو یا منتر کی اثر انگیزی اللہ کے ارادے سے ماوراء ہو یا کائنات میں کسی دوسرے خدا کے اذن سے ہو۔ یہ اسباب کا سلسلہ بھی باقی تمام سلسلوں کی طرح اللہ کے اذن کا ہی مظہر ہے۔ اس کی قدرت سے باہر کچھ نہیں۔

اسی طرح ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت کا بیان ہے کہ اگر وہ کسی کو ہدایت یا گمراہی دے دے، تو کوئی بھی اس کے فیصلے کو اُس کی مرضی کے خلاف تبدیل نہیں کر سکتا۔

سنت الٰہی کے مطابق ہدایت اور گمراہی

باقی رہا یہ کہ ہدایت اور گمراہی کے معاملے میں اللہ کا طریقۂ کار کیا ہے، تو اس کا بیان قرآن کی دیگر آیات میں ملتا ہے، جیسے:

"وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ”
(ترجمہ: "اور جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں، ہم یقینا انہیں اپنی راہیں دکھا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ یقینا اچھے کام کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔)”
سورہ العنکبوت، آیت 69

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے