سوال
سورۃ الحدید کی چوتھی آیت کی روشنی میں کیا یہ کہنا درست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے؟ اگر نہیں، تو اس کی دلیل کیا ہے؟
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿هُوَ الَّذى خَلَقَ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ يَعلَمُ ما يَلِجُ فِى الأَرضِ وَما يَخرُجُ مِنها وَما يَنزِلُ مِنَ السَّماءِ وَما يَعرُجُ فيها وَهُوَ مَعَكُم أَينَ ما كُنتُم وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ بَصيرٌ ﴿٤﴾…
(سورۃ الحدید: 4)
ترجمہ:
"وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہوگیا۔ وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے، اور اسے بھی جانتا ہے جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے، اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے، اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو، اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو، اسے وہ دیکھتا ہے۔”
(الکتاب/ڈاکٹر محمد عثمان، ص324)
قرآنی آیت کی تشریح اور علماء کی آراء
1. تفسیر امام طبری رحمہ اللہ:
قدیم مفسرِ قرآن امام محمد بن جریر الطبری (متوفی 310ھ) فرماتے ہیں:
"وهو شاهد لكم أيها الناس أينما كنتم يعلمكم، ويعلم أعمالكم، ومتقلبكم ومثواكم، وهو على عرشه فوق سمواته السبع”
(تفسیر طبری، ج27، ص125)
ترجمہ:
"اور اے لوگو! وہ (اللہ) تم پر گواہ ہے، تم جہاں بھی ہو، وہ تمہیں جانتا ہے، تمہارے اعمال، پھرنا اور ٹھکانا جانتا ہے اور وہ اپنے سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر ہے۔”
2. تفسیر امام ضحاک رحمہ اللہ:
مفسر ضحاک بن مزاحم الہلالی الخراسانی (متوفی 106ھ) اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"هُوَ فَوْق الْعَرْش وَعِلْمه مَعَهُمْ أَيْنَمَا كَانُوا”
(تفسیر طبری، ج28، ص10، وسندہ حسن)
ترجمہ:
"وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان (لوگوں) کے ساتھ ہے، چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہوں۔”
3. اجماع اہل سنت:
امام ابو عمر احمد بن محمد بن عبداللہ الاندلسی (متوفی 429ھ) فرماتے ہیں:
"أهل السنة المسلمين أجمعوا على أن: ﴿وَهُوَ مَعَكُم أَينَ ما كُنتُم…﴾ وغيرها من الآيات تعني: أنه علمه، وأن الله تعالى فوق السموات بذاته مستو على عرشه كيف شاء”
(شرح حدیث النزول لابن تیمیہ، ص144-145)
ترجمہ:
"اہل سنت مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا علم ہر جگہ ہے، اور اللہ اپنی ذات کے لحاظ سے آسمانوں پر، عرش پر مستوی ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔”
کیا اللہ تعالیٰ ہر جگہ بذاتہ موجود ہے؟
یہ کہنا کہ "اللہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے”، کتاب و سنت اور اجماع کے خلاف ہے اور غلط اور باطل نظریہ ہے۔
دلائل:
◈ "يَعلَمُ” کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں معیت (ساتھ ہونے) سے علم اور قدرت مراد ہے، نہ کہ ذات۔
◈ تفصیل کے لیے شیخ بدیع الدین الراشدی رحمہ اللہ کی کتاب "توحید خالص” (ص277) کا مطالعہ مفید رہے گا۔
دیگر معتبر علماء کی آراء
1. امام حارث المحاسبی رحمہ اللہ (متوفی 243ھ)
فرماتے ہیں:
"وكذلك لا يجوز…..الخ”
(فہم القرآن ومعانیہ، القسم الرابع، باب ما لا یجوز فیہ النسخ)
ترجمہ:
"اور اسی طرح یہ کہنا جائز نہیں کہ اللہ زمین پر ہے۔”
2. حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (متوفی 597ھ)
فرماتے ہیں:
"(جہمیہ کے فرقے) ملتزمہ نے باری تعالیٰ کو ہر جگہ (موجود) قرار دیا ہے۔”
(تلبیس ابلیس، ص30، راقم الحروف کی کتاب: بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم، ص19)
3. شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ (متوفی 561ھ)
فرماتے ہیں:
"اور یوں کہنا جائز نہیں کہ وہ (اللہ) ہر مکان میں ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ آسمان میں عرش پر ہے۔”
(غنیۃ الطالبین، ج1، ص100)
نتیجہ
مندرجہ بالا تفاسیر اور اقوال کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود نہیں ہے، بلکہ وہ عرش پر مستوی ہے اور اس کا علم اور قدرت ہر جگہ موجود ہے۔
لہٰذا، جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ "اللہ ہر جگہ بذاتہ موجود ہے”، ان کا نظریہ قرآن، سنت اور اجماع کے خلاف ہے، اور مردود ہے۔
واللہ أعلم بالصواب