تعارف
الحاد محض عقل پر مبنی ایک سوچ نہیں بلکہ اگر اسے سچ مانا جائے تو یہ زندگی کے بارے میں کچھ انتہائی مایوس کن اور غیر اطمینان بخش نتائج پر منتج ہوتا ہے۔ الحاد کے مطابق، زندگی محض ایک کھیل ہے: ایک بار جیتنا یا ہارنا، اور پھر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جانا۔ لیکن کیا واقعی زندگی کو صرف ایک کھیل کے طور پر دیکھنا درست ہے؟ اس مضمون میں، ہم الحاد کے نظریے کے اثرات کا تجزیہ کریں گے، جو خدا اور اس کے احتسابی نظام کو مسترد کرنے کے نتیجے میں وجودی بحران پیدا کرتے ہیں۔
کوئی امید نہیں
امید کا تصور
امید وہ جذبہ ہے جو ہمیں مستقبل کے بارے میں مثبت توقعات دیتا ہے۔ ہم اچھی زندگی، صحت، انصاف اور آخرت میں خوشحالی کی توقع کرتے ہیں۔ اگر کوئی یہ تصور کرے کہ زندگی محض ایک کھیل ہے اور موت کے بعد کچھ بھی نہیں، تو پھر امید کا تصور ہی ختم ہو جاتا ہے۔
الحاد کا نظریہ
الحاد میں خدا اور آخرت کے احتساب کا انکار ہے۔ اس کے نتیجے میں، دنیاوی مصیبتوں کے بعد کسی بہتر انجام کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی ساری زندگی غربت میں مبتلا رہے، تو الحاد کے مطابق اس کے لیے کوئی اجر یا خوشی کی امید نہیں۔ اس کے برعکس، اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر مصیبت ایک امتحان ہے، اور اللہ ہر دکھ کا صلہ آخرت میں ضرور دے گا۔ (دیکھیے: باب نمبر 11)
شوپنہاور کا فلسفہ
مایوس فلسفی آرتھر شوپنہاور نے الحادی دنیا کے مایوس کن حقائق کو یوں بیان کیا:
"ہم بھیڑوں کی طرح ہیں جو بے خبر اپنے انجام کی طرف بڑھتی ہیں۔ مصیبت اور تکلیف ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہے، اور یہ کبھی نہیں رکتا۔”
اسلامی نقطہ نظر
اسلامی تعلیمات کے مطابق، امید اللہ کی رحمت سے جڑی ہے۔ قرآن ہمیں یقین دلاتا ہے کہ اللہ کی رحمت دنیا اور آخرت دونوں میں ظاہر ہوگی:
"اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔”
(سورہ یوسف، آیت 87)
کوئی عدل نہیں
عدل کا فقدان
الحاد کے مطابق مرنے کے بعد زندگی ختم ہو جاتی ہے، اور کوئی انصاف نہیں ہوتا۔ 1940 کی دہائی کے جرمنی کا تصور کریں، جہاں ایک یہودی عورت اپنے خاندان کو قتل ہوتے دیکھتی ہے اور خود گیس چیمبر کا انتظار کرتی ہے۔ اگر کوئی آخرت نہ ہو، تو ایسے مظلوموں کے لیے انصاف کہاں ہے؟
اسلام میں عدل کا تصور
اسلام یقین دلاتا ہے کہ آخرت میں ہر کسی کے ساتھ انصاف ہوگا:
"جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی، وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی، وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔”
(سورہ زلزلہ، آیات 8-6)
کوئی قدروقیمت نہیں
الحاد کا نظریہ
الحاد کے مطابق انسان محض مادے کا مجموعہ ہے۔ اگر ہر چیز مادے پر مشتمل ہے، تو ایک انسان اور برف کے پتلے میں کیا فرق ہے؟ انسان کی قدر و منزلت کا تصور الحاد کے نقطہ نظر سے محض ایک فریب ہے۔
اسلامی نقطہ نظر
اسلام کے مطابق انسان کی وقعت اللہ کی تخلیق کی وجہ سے ہے۔ اللہ نے انسان کو شرف بخشا اور اسے دیگر مخلوقات پر فضیلت دی:
"اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔”
(سورہ الاسراء، آیت 70)
کوئی مقصد نہیں
الحاد میں مقصد کی کمی
فطرت پرستی کے مطابق، ہم محض ایک حادثاتی وجود ہیں، اور ہماری زندگی کا کوئی مقصد نہیں۔ مشہور فلسفی وٹگنسٹائن نے کہا:
"مجھے نہیں معلوم ہم یہاں کیوں ہیں، لیکن یہ زندگی محض مزے کے لیے نہیں۔”
اسلامی تصور
اسلام ہمیں واضح مقصد فراہم کرتا ہے: اللہ کی عبادت اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا:
"میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔”
(سورہ الذاریات، آیت 56)
عبادت کا مطلب صرف نماز یا روزہ نہیں، بلکہ ہر وہ عمل جو اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے۔
کوئی حقیقی خوشی نہیں
الحاد کی محدود خوشی
الحاد حقیقی خوشی فراہم نہیں کرتا کیونکہ وہ وجود کے اہم سوالات کا جواب نہیں دیتا: ہم یہاں کیوں ہیں؟ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ الحادی خوشی عارضی اور دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔
خوشی کا اسلامی تصور
اسلام ہمیں حقیقی خوشی کی طرف رہنمائی کرتا ہے، جو اللہ کی معرفت اور اس کی عبادت میں پوشیدہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، اللہ کی عبادت ہمیں دنیا کی غلامی سے آزاد کرتی ہے:
"جو شخص اللہ کی طرف رجوع کرے، وہی سکون پائے گا۔”
(سورہ رعد، آیت 28)
اختتام: الحاد اور اسلام کا موازنہ
الحادی نظریہ زندگی کے بارے میں کوئی حقیقی معنی، قدر، مقصد یا خوشی فراہم نہیں کرتا۔ اس کے برعکس، اسلام ہمیں زندگی کا مقصد، حقیقی قدر اور آخرت میں امید فراہم کرتا ہے۔ الحاد ہمیں ایک ڈوبتی کشتی پر سوار سمجھتا ہے، جب کہ اسلام ہمیں نجات اور فلاح کا راستہ دکھاتا ہے۔