الحاد، خدا کے وجود پر اعتراضات اور جذباتی بنیادیں
تحریر: مزمل شیخ بسمل

ملحدین کا عمومی رویہ: عقل یا جذبات؟

ملحدین کی بڑی تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہے جو نہ تو فلسفیانہ گہرائیوں کو سمجھتے ہیں اور نہ منطقی نکات کو ہضم کر پاتے ہیں۔ اس کے باوجود، وہ انٹیلیجنٹ ڈیزائن اور خدا کے وجود پر ہونے والی بحثوں کو یکسر رد کر دیتے ہیں۔ جب انہیں یہ بات سمجھائی جائے کہ کائنات کی حیران کن ترتیب، خوبصورت نظام اور جانداروں کے پیچیدہ میکانزم کسی خالق کی موجودگی کا واضح ثبوت ہیں، تو وہ فوراً سوال اٹھاتے ہیں:

اگر سب کچھ خدا نے بنایا ہے تو خدا کو کس نے بنایا؟

خدا کی تعریف اور کائنات کا آغاز

جب یہ بتایا جائے کہ خدا کی تعریف ہی ایسی ہے کہ اس کا پیدا ہونا لازم نہیں، وہ ہمیشہ سے موجود ہے، تو ملحدین فوراً اعتراض کرتے ہیں کہ اگر خدا ہمیشہ سے ہے تو کائنات بھی خودبخود کیوں نہیں ہو سکتی؟
یہاں انہیں سائنس کے اس اصول کی یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں تھی، بلکہ یہ ایک خاص وقت میں وجود میں آئی ہے۔ لیکن اکثر مقلد ملحدین بات سننے کے بجائے مذہب اور انبیاء کی توہین پر اتر آتے ہیں یا یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ:

اگر خدا ہے تو دنیا میں ظلم کیوں ہو رہا ہے؟ معصوم بچیوں کی عزت کیوں لٹتی ہے؟ لوگ فاقوں کا شکار کیوں ہیں؟

مذہب کے بغیر اخلاقیات کی بنیاد؟

اس اعتراض کا جواب مذہب بارہا دے چکا ہے، لیکن ملحدین اکثر یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر ملحدین مذہب کو تسلیم نہیں کرتے تو وہ اخلاقی پامالی کو غلط کہنے کا حق کس بنیاد پر رکھتے ہیں؟ بغیر کسی الہامی اصول کے، اخلاقیات کو "غلط” یا "صحیح” کہنا بے بنیاد ہو جاتا ہے۔

ظلم اور آزادیٔ اختیار کا تعلق

ملحدین کو یہ نکتہ سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے کہ خدا نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ اخلاقی اصولوں پر چلے یا ان کی خلاف ورزی کرے۔ یہ اختیار انسان کو آزمائش کے لیے دیا گیا ہے، اور ہر عمل کا بدلہ اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَابَّةٍ وَلَـٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى”
(سورۃ النحل: 61)
’’اگر اللہ لوگوں کو اُن کی زیادتی پر فوراً پکڑتا تو زمین پر کوئی جاندار باقی نہ رہتا، مگر وہ سب کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیتا ہے۔‘‘

رضا اور مشیئت کا فرق

اللہ کی رضا یہ ہے کہ انسان نیکی کے راستے پر چلے، لیکن اس کی مشیئت انسان کو آزاد چھوڑ دیتی ہے تاکہ وہ اپنے اختیار سے راستہ چنے۔ اگر ہر گناہ فوراً روکا جاتا، تو آزمائش کا کوئی مقصد باقی نہ رہتا۔
مثال کے طور پر، سڑک پر پڑے کیچڑ کو دیکھ کر انسان کے پاس اختیار ہے کہ وہ کیچڑ میں نہانے کا انتخاب کرے یا بچ کر نکل جائے۔ اگر کوئی جان بوجھ کر کیچڑ میں گر کر رونا شروع کر دے کہ "خدا نے مجھے کیوں نہیں بچایا؟” تو اس پر افسوس کرنے کے بجائے آگے بڑھ جانا بہتر ہے۔

مذہب کا اخلاقی پہلو اور ملحدین کی بے بسی

خدا پر یقین رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ دنیا کی ہر آزمائش کا اجر آخرت میں موجود ہے، لیکن ملحدین کے پاس ان مسائل کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ وہ ظلم کو غلط تو کہتے ہیں، لیکن اس "غلط” کی تعریف کی بنیاد خود ان کے پاس موجود نہیں ہوتی۔
اگر دنیا میں کسی کی عزت پامال ہو گئی، تو ملحدین کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اسے غلط کہنے کا حق کہاں سے حاصل کرتے ہیں، کیونکہ زنا کو گناہ کہنا تو مذہب کا کام ہے۔

نتیجہ

ملحدین کی اکثریت دلیل سے زیادہ جذبات کی بنیاد پر خدا کے وجود سے انکار کرتی ہے۔ ان کے پاس خدا کی غیر موجودگی پر کوئی مضبوط عقلی بنیاد نہیں ہوتی، اور اکثر ان کے اعتراضات مایوسی، جذباتیت اور مذہب سے خفگی پر مبنی ہوتے ہیں، جس کا منطقی دلائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے