افضل قسم کا حج اور حج تمتع کی فضیلت
حج کی کون سی قسم افضل ہے
سوال : ہمارے لیے حج کی کون سی قسم افضل ہو گی جبکہ ہم نے ابھی سے قربانی کے جانور کے لیے رقم اپنے وکیل کو جمع کرا دی ہے؟
جواب : حج کی تین قسمیں ہیں، پہلے ان کی معرفت اچھی طرح سمجھ لیں تاکہ آپ جان لیں کہ ہم نے حج کا کون سا طریقہ اختیار کرنا ہے۔
حج تمتع :
حج تمتع یہ ہے کہ میقات سے صرف عمرہ کا احرام باندھیں اور «لَبَّيْكَ اَللّٰهُمَّ عُمْرَةَ» کہیں پھر تلبیہ جائیں، مکہ پہنچ کر بیت اللہ کا طواف کریں۔ مقامِ ابراہیم کے پاس دو رکعت پڑھیں، اس کے بعد صفا و مروہ کی سعی کریں، بال کٹوائیں اور احرام کھول دیں اور عام معمول کے مطابق زندگی بسر کریں اور اب آپ احرام کی پابندیوں سے آزاد ہیں، پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھیں اور مناسکِ حج ادا کریں۔
حج قران :
اس کے لیے میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھیں، مکہ پہنچ کر عمرہ کریں لیکن احرام نہیں کھولیں گے اور نہ احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوں گے بلکہ حالتِ احرام ہی میں رہیں گے اور اس حالت میں 8 ذوالحجہ کو منیٰ چلے جائیں اور احکامِ حج ادا کریں۔
حج مفرد :
اس صورت میں صرف منٰی سے حج کی نیت کر کے احرام باندھیں، طواف قدوم اور سعی کریں مگر احرام نہ کھولیں بلکہ اسی طرح منٰی چلے جائیں اور تمام مناسک پورے کر کے احرام کھول دیں۔
یہ حج کی تین اقسام بالاتفاق صحیح ہیں، اب اختلاف یہ ہے کہ ان میں سے افضل قسم کون سی ہے ؟ بعض نے حج قران کو افضل قرار دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حج کیا تھا اور بعض نے تمتع کو افضل قرار دیا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تمنا کی تھی۔
بعض نے کہا اگر قربانی لے کر جا رہا ہو تو حج قران افضل ہے اور اگر قربانی لے کر نہ گیا ہو تو حج تمتع افضل ہے۔
ہمارے نزدیک صحیح دلائل کی رو سے حج تمتع افضل ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ حج قران کیا تھا مگر افسوس کا اظہار کیا تھا اور فرمایا تھا :
”جو بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی ہے وہ اگر پہلے معلوم ہو جاتی تو اپنے ساتھ قربانی نہ لاتا۔“ [صحيح بخاري، كتاب التمني : باب قول النبى لو استقبلت من أمري ما استدبرت 7229، أبوداؤد 1784]
جن صحابہ کرام کے پاس قربانی کے جانور نہیں تھے اور انہوں نے حج قران کی نیت سے احرام باندھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ عمرہ کر کے احرام کھول دیں اور قران کی نیت ختم کر کے تمتع کی نیت کر لیں جیسا کہ [صحيح مسلم 1218] اور [بيهقي 338/4] میں موجود ہے۔
اور جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو مشورہ سمجھا اور احرام نہ کھولا آپ نے ان پر شدید ناراضی کا اظہار فرمایا جیسا کہ [صحيح مسلم 654/8، 155، ابن خزيمة 2606، بيهقي 19/5 اور مسند أحمد 175/6] میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں موجود ہے۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حج تمتع کی تمنا کرنا اور جن صحابہ کے پاس قربانیاں نہ تھیں انہیں عمرہ کر کے احرام کھولنے کا حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ حج تمتع افضل ہے اور یہی کثیر اہلِ علم کا موقف ہے۔ جیسا کہ [نيل الأوطار 130/4، 131 اور الفتح الرباني 90/11۔ 99] وغیرہ میں مرقوم ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1