اعتکاف میں پردہ لگانے کے انکار پر قرآن و سنت کی روشنی میں تنبیہ
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

جو لوگ مسجد میں اعتکاف کے لیے پردہ لگانے کی مخالفت کرتے ہیں یا اس کے جواز کو مسترد کرتے ہیں، ان کے لیے درج ذیل اصول اور دلائل پیش کیے جاتے ہیں تاکہ وہ دین کے صحیح فہم تک پہنچ سکیں

➊ قرآن کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۚ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا
(الأحزاب: 36)

"اور کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو وہ اس میں اپنی مرضی کریں، اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا۔”

جو لوگ نبی کریم ﷺ کے عمل سے ثابت شدہ چیز کو رد کرتے ہیں، وہ درحقیقت اللہ اور رسول کی نافرمانی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کو رد کرنا مومن کے شایان شان نہیں۔

➋ حدیث کی روشنی میں

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

من رغب عن سنتي فليس مني
(بخاری: 5063، مسلم: 1401)

"جو میری سنت سے اعراض کرے، وہ مجھ سے نہیں ہے۔”

جب نبی کریم ﷺ نے خود اعتکاف کے دوران پردہ (خیمہ) لگایا اور امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن نے بھی ایسا کیا، تو اس عمل کا انکار کرنا نبی کریم ﷺ کی سنت سے روگردانی کے مترادف ہے۔

➌ صحابہ کرام کے اجماع کی روشنی میں

حضرت عائشہ، حضرت حفصہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہن نے مسجد میں پردے لگا کر اعتکاف کیا۔
(بخاری: 2033)

نبی کریم ﷺ نے ان کے اس عمل پر نکیر نہیں فرمائی بلکہ خود بھی پردہ لگایا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ عمل نہ صرف جائز بلکہ نبی ﷺ کی سنت بھی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی اس کو ناجائز کہے تو وہ دراصل صحابہ کرام اور امہات المؤمنین کے اجماع کی مخالفت کر رہا ہے۔

➍ سزا اور انجام

قرآن میں واضح وعید موجود ہے ان لوگوں کے لیے جو نبی ﷺ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں:

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
(النور: 63)

"جو لوگ نبی کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی فتنہ آ جائے یا دردناک عذاب پہنچے۔”

بغیر علم کے شرعی امور میں مخالفت کرنے والا فتنہ اور عذابِ الٰہی کا مستحق بن سکتا ہے۔

➎ نتیجہ

پردے کو غیر ضروری یا بدعت کہنا غلط ہے، کیونکہ یہ نبی کریم ﷺ کا عملی طریقہ اور امہات المؤمنین کا طرز عمل ہے۔ ایسی مخالفت کرنے والا شخص گمراہی اور فتنہ کا شکار ہو سکتا ہے۔ شرعی دلیل کے بغیر انکار کرنا اللہ اور رسول کی نافرمانی ہے، جس پر قرآن میں سخت وعید سنائی گئی ہے۔

نتیجہً: اعتکاف میں پردے لگانا سنت سے ثابت ہے، اس کی مخالفت کرنا دین کے صریح احکام سے انحراف ہے، اور اس پر شدید وعید آئی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1