تیسری بحث: اصولِ فقہ کے بعض قواعد پر کلام
بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ ہم اصلاً فقہی کتابوں اور اُصول پر مبنی قواعد سے مکمل انکار یا بے اعتنائی برتنے کی دعوت دے رہے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ نہیں۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ:
- ان اُصول و قواعد کو کتاب و سنت پر پیش کیا جائے، اور
- درست اور غلط قواعد کی نشاندہی ہو سکے۔
تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی غلط اصول پر دینی احکام کی بنیاد رکھی جائے، اور دین کے بہت سے مسائل باطل ہی قرار پائیں۔ اسی لیے ہم ذیل میں اصولِ فقہ کے چند ایسے غلط قواعد کا ذکر کر رہے ہیں جن کی بنیاد پر بہت سے مقامات پر شریعت کی اصل روح متاثر ہوئی ہے۔
ممکن ہے یہ بحث کسی کے لیے مختصر ہو، تو یاد رہے کہ کسی "اصول” پر تفصیلی کلام کے لیے الگ رسالے یا کتاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں مختصر اظہارِ خیال صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ایک عام قاری کو اندازہ ہو جائے کہ اگر فقہ کے کسی مکتب فکر کے اصول ہی کتاب و سنت سے مطابقت نہ رکھتے ہوں تو اس پر مبنی فروع بھی محلِ نظر بن جاتی ہیں۔
شریعتِ اسلامیہ کے چار اصول؟ حنفیہ کا موقف
- حنفی فقہ کے مطابق قرآن، سنت، اجماع اور قیاس چاروں مستقل اصولِ شریعت ہیں۔
حالانکہ:
– اجماع اور قیاس مستقل ماخذِ شریعت نہیں ہیں، بلکہ تابع ہیں۔
– اجماع کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ماخذ کتاب و سنت ہو۔ وہ بذاتِ خود نیا حکم گھڑنے کا اختیار نہیں رکھتا۔
– قیاس صرف مجتہد کے لیے ضرورت کے وقت ایک اجتہادی وسیلہ ہے، اسے عوام پر بحیثیت "مطلق حجت” پیش نہیں کیا جا سکتا۔
– صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی متعدد بار بعض قیاسات کو رد کیا ہے۔
درحقیقت شریعت کے بنیادی دو ہی اصول ہیں: "أطِيعُوا اللّٰهَ وَأطِيعُوا الرَّسُولَ”۔ باقی چیزیں (قیاس، مصالح مرسلہ، عرف، استحسان وغیرہ) کتاب و سنت کے ماتحت ہیں؛ اُن کے خلاف پائی جائیں تو مردود ہوں گی۔
کتاب اللہ کو 20 حصوں میں تقسیم کرنا
- اصولین (مخصوص حنفی اصولیوں) نے کتاب اللہ کو 20 اقسام میں تقسیم کیا ہے، مثلاً حقیقت، مجاز، عام، خاص وغیرہ۔ اس کے بعد طلاق، وصیتوں اور غلاموں کے موضوع پر مباحث کرتے ہیں، مگر قرآن کی آیتیں پیش کرنے کے بجائے خود ساختہ یا فرضی مسائل پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ کتابوں (اصول الشاشی، نور الانوار، حسامی، تلویح وتوضیح) میں ایسی مثالیں آسانی سے مل جائیں گی۔
حالانکہ اس تفصیل کے لیے خود قرآن نے ایسی کوئی تقسیم متعین نہیں کی، اور صحابہ کرام یا ائمہ اربعہ سے بھی اس تقسیم کا ثبوت نہیں ملتا۔ لہٰذا ایسی مبالغہ آمیز تقسیمیں بہت سے غیر متعلقہ مباحث کا دروازہ کھول دیتی ہیں۔
امام ابو حنیفہ و صاحبین کی اصولی تصنیفات نہ ہونا
- امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ، امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ کی طرف سے کوئی باقاعدہ اصولی تصنیف ثابت نہیں۔ بس اُن کے جزئیات اور فروعی مسائل تھے جنہیں بعد کے لوگوں نے مرتب کر کے بطور "اصولِ حنفیہ” پیش کر دیا۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اَکثر مقلدین سمجھتے ہیں کہ جو اصول کتاب البزدوی وغیرہ میں مذکور ہیں، وہی امام ابو حنیفہ اور صاحبین کے اصول ہیں، حالانکہ اکثر اُصول اُن کے فروع ہی سے گھڑے گئے ہیں۔ اور یہ اصول اُن کی طرف بحیثیت روایت ہرگز ثابت نہیں۔”
(الانصاف ص88، حجۃ اللہ البالغۃ ج1 ص160)
قرآن کو لفظاً ومعنیٰ کہہ کر بھی…
- بعض حنفی اُصولیوں کے ہاں یہ بھی ملتا ہے: "القرآن اسم للنظم والمعنیٰ جمیعاً”، پھر اسی کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ "قرآن الفاظ کے اعتبار سے مخلوق ہے جبکہ معناً غیر مخلوق (کلام نفسی)”۔ اس قول میں آپس میں ہی تضاد ہے۔
اسی طرح فارسی میں قراءت کے جواز کے مسئلے پر قرآنی نص کا مخالف موقف اختیار کیا گیا۔ نور الانوار (ص9) میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ "ممکن ہے قرآن کے الفاظ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایک حجاب ہوں”۔ حالانکہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف ہدایت کا ذریعہ ہے، حجاب نہیں!
"کتاب اللہ کا خاص، بیّن بنفسہ ہوتا ہے”
- ایک اور قاعدہ یہ گھڑا گیا کہ کتاب اللہ کا جو حصہ خاص ہو، وہ بنفسہٖ بیّن ہوتا ہے۔ اس کی تشریح کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ (نور الانوار ص15، حسامی وغیرہ)
– یہ براہِ راست قرآن کے مخالف ہے، کیوں کہ اللہ نے خود فرمایا کہ اے نبی! ہم نے قرآن نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے اختلافی امور کی وضاحت کریں۔ (النحل:44)
– اس قاعدے کا مقصد عموماً بعض احادیث کو رد کرنا ہوتا ہے کہ "ہمیں بیان کی ضرورت نہیں، قرآن کا خاص حصہ تو واضح ہی ہے”۔
– اسی لیے وضوء کے لیے نیت والی احادیث، نماز میں تعدیلِ ارکان والی احادیث وغیرہ کو رد کر دیا جاتا ہے۔
"اَمر” کا وجوب والا قاعدہ… مگر خلاف ورزی
- حنفیہ اصولی کتابوں میں درج ہے کہ "اَمر للوجوب” (نور الانوار ص31) یعنی جب اللہ یا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی حکم دیں تو وہ وجوب کے معنی رکھتا ہے، جب تک کوئی قرینہ استحباب کی طرف نہ لے جائے۔ یہ اصول کتاب و سنت کے عین مطابق ہے، لیکن احناف نے بے شمار مسائل میں اس کی خلاف ورزی کر دی:
مثلاً کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، اور نماز میں کئی اُمور جن کے بارے میں صریح اَمر پایا جاتا ہے لیکن اُسے سنت یا مستحب کہہ دیتے ہیں، حالانکہ وہاں کوئی قرینہ موجود نہیں۔
"اَمر تکرار کا تقاضا نہیں کرتا”
- ایک اور عمومی اصول: "اَمر (حکم) تکرار کا متقاضی نہیں” (نور الانوار ص23)۔ حالانکہ شریعت میں ایسے بہت سے احکام ہیں جو استمرار اور تکرار کا تقاضا کرتے ہیں:
– "اُذکروا اللہ” (اللہ کو یاد کرتے رہو)
– "واشکروا لی” (میرا شکر ادا کرتے رہو)
– "واعبد ربک” (اپنے رب کی عبادت جاری رکھو)
وغیرہ۔ خلاصہ یہ کہ "اَمر تکرار کا تقاضا نہیں کرتا” اس وقت تک صحیح نہیں جب تک اسے کچھ خاص احکام سے مقید نہ کیا جائے۔
اَمر کو "خاص” کہنا… اور پھر ندب و اباحت؟
- بعض مقامات پر کہا جاتا ہے کہ "اَمر خاص ہوتا ہے” (کیوں کہ وہ ایک معلوم معنی کے لیے آتا ہے)، مگر پھر وہی اصولی کہتے ہیں کہ یہ اَمر کبھی وجوب، کبھی ندب، کبھی اباحت کے معنی دیتا ہے۔ یہ آپس میں واضح تضاد ہے: اگر اَمر واقعی خاص تھا تو اس میں ایک ہی معنی برقرار رہتا، ندب اور اباحت کی گنجائش کہاں سے آئی؟
نہی افعال مشروعہ سے بقاء مشروعیت کا تقاضا کرتی ہے؟
- یہ بھی ایک عجیب قاعدہ ہے جو بعض اصولی کتابوں میں ملتا ہے کہ "اگر کسی مشروع کام سے نہی وارد ہو، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کام اپنی مشروعیت پر قائم رہے گا۔” حالانکہ واضح بات ہے کہ اگر کسی کام سے نہی ہے تو اس کام کو جاری رکھنا کیونکر جائز ہوگا؟ مثلاً عید کے دن روزہ رکھنے سے صریح نہی ہے تو ظاہر ہے وہ مشروع ہی نہیں رہتا۔
حقیقت اور مجاز
- اصول فقہ میں عام طور پر ایک طویل باب "حقیقت و مجاز” پر قائم کیا گیا ہے۔ بیسیوں فروع اس پر اٹھائی جاتی ہیں، اور بہت سے فرضی مسائل اس کے ساتھ جوڑ دیے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ تقسیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام یا ائمہ اربعہ سے ثابت نہیں۔
یہ اصطلاح عربی لغت اور بلاغت کے مابعد مراحل میں زیر بحث آئی۔ اس پر لامتناہی مباحث چھیڑنا بالکل غیر ضروری ہے، اور بعض نے تو اس کی وضع کو تیسری صدی ہجری کے بعد کی پیداوار قرار دیا ہے۔
کتاب و سنت کے مفہوم کا اعتبار نہ کرنا…
- بعض حنفی فقہا کا ایک رجحان یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت کے مفہوم (مخالف) کو زیادہ قابلِ حجت نہیں سمجھتے، لیکن اپنی فقہی کتابوں کے متون کے مفہوم کا اعتبار کرتے ہیں۔ یہ طریقہ بجائے خود محلِ نظر ہے۔
خبر واحد مفیدِ ظن؟
- بہت سی حنفی اصولی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ "خبر واحد سے یقین حاصل نہیں ہوتا، یہ ظنی دلیل ہے، اور اس سے فرضیت یا حتمی حکم ثابت نہیں ہو سکتا۔” اسی طرح اگر خبر واحد قرآن پر کسی قسم کی زیادتی کر رہی ہو تو اُس خبر کو رد کیا جائے گا۔
– یہ بات بھی محلِ نظر ہے۔ صحاحِ ستہ کے بہت سے متفقہ روایات "خبر واحد” ہی ہیں، لیکن امّت نے انہیں یقین کے ساتھ قبول کیا ہے۔
– امام شافعی، ابن حزم، شوکانی اور دیگر بہت سے محققین نے بڑے شدّومد سے خبر واحد کو حجت قرار دیا ہے، جس سے یقین بھی حاصل ہو سکتا ہے۔
"خبر واحد، قرآن پر زیادتی نہیں کر سکتی”
- اس قاعدے کے تحت کئی صحیح احادیث کو چھوڑ دیا گیا، حالانکہ ایسی روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کی حیثیت رکھتی ہیں اور قرآن کے عمومی حکم کو خاص یا مطلق کو مقید کر سکتی ہیں۔
– معروف مثالوں میں مہر کی کم از کم مقدار اور چور کے لیے نصابِ سرقہ کا تعین جیسے مسائل ہیں، جنہیں کتاب و سنت کی ہم آہنگی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
– اس قاعدے کا کثرتِ استعمال کرکے بہت سے احکامِ نبوی کو ایک طرف رکھ دیا گیا۔ بعض مقلدین یہی رویہ اختیار کرتے کرتے پرویزی سوچ کے قریب ہو گئے ہیں کہ "اگر ہمارے امام کی دلیل قرآن کے مطابق نظر آئے تو حدیث مان لیں، ورنہ حرج نہیں۔”
مرسل حدیث حجت ہے مگر…؟
- بعض حنفی اُصولی مرسل حدیث کو مطلقاً حجت مانتے ہیں، یہ کہہ کر کہ "اگر راوی کے نزدیک یہ ثابت نہ ہوتی تو وہ اس کو اپنی جانب سے بیان نہ کرتا۔” حالانکہ اُصولِ حدیث میں واضح شرائط ہیں کہ مرسل تب ہی قبول ہو گی جب اس کے دیگر قرائن یا ثقہ راویوں کی تائید مل جائے۔
"غیر فقیہ صحابی” کی روایت رد کر دیں؟
- یہ حنفیہ کا ایک نہایت خطرناک قاعدہ ہے کہ اگر "غیر فقیہ صحابی” کی حدیث ہمارے قیاس کے خلاف ہو تو اُسے چھوڑ دیں گے، اس احتمال پر کہ صحابی نے روایت بالمعنیٰ کی ہو گی اور پوری طرح مفہوم نہ سمجھ سکے ہوں۔ نور الانوار (ص183) وغیرہ میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔
– نتیجتاً ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور انس رضی اللہ عنہ جیسی جلیل القدر ہستیوں کی روایات بڑی آسانی سے رد کر دی جاتی ہیں۔
– ایسا اصول نہ صحابہ کرام سے ثابت ہے، نہ ائمہ اربعہ سے۔ یہ بعد کے متعصب اُصولیوں کی ایجاد ہے، جس سے بے شمار احادیث عملاً معطل یا مشکوک ہو جاتی ہیں۔
صحابہ کرام میں "مجہول” بھی ہیں؟
- حنفیہ کے بعض اصولی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام میں مجہول بھی ہیں، لہٰذا ان کی روایت قبول نہ کی جائے گی۔ نور الانوار (ص184) میں وابصہ بن معبد، معقل بن سنان اور فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہم کو مجہول قرار دے دیا گیا۔ حالانکہ یہ سب بڑی معتبر شخصیات ہیں، جن کی روایتیں کتب حدیث میں صحیح سندوں سے موجود ہیں۔
راوی کا اپنا عمل روایت کے خلاف ہو تو…؟
- ایک غلط قاعدہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی صحابی کا اپنا عمل اُس کی روایت کردہ حدیث کے خلاف ملے تو حدیث کو چھوڑ دیں گے۔ حالانکہ عین ممکن ہے اُس صحابی کو کسی موقع پر حدیث بھول گئی ہو، یا کسی دوسری دلیل کی بنا پر دوسرے موقف کو ترجیح دی ہو۔ محدثین کے ہاں یہ بات طے شدہ ہے کہ راوی کی روایت اس کے عمل پر مقدم ہوگی؛ کیونکہ ترکِ عمل کے متعدد اسباب ہو سکتے ہیں۔
"صحیح حدیث قرآن کے خلاف ہو سکتی ہے”
- نور الانوار (ص189) وغیرہ میں یہ بیان ملتا ہے کہ بعض صحیح احادیث قرآن کے مخالف ہو سکتی ہیں۔ مثالیں: سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں، ایک قسم اور ایک گواہ کے ساتھ فیصلہ، فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی روایت۔
– حالانکہ صحیح احادیث کبھی قرآن کی مخالف نہیں ہو سکتیں، بلکہ وہ قرآن کی تشریح ہیں۔ تعارض تو وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں حدیث ضعیف یا موضوع ہو، یا مقلد نے خود اپنی ناقص سمجھ کے سبب ٹکراؤ مان لیا ہو۔
مدلس راوی کی عنعنہ ہر حال میں قبول؟
- بعض حنفی اُصولیوں نے یہ رائے بھی دی کہ ہر مدلس راوی کی روایت (عنعنہ) بھی قبول ہے۔ (نور الانوار ص192)۔ مگر محدثین کا اتفاق ہے کہ مدلس راوی کی عنعنہ تحقیق کے بغیر قابلِ قبول نہیں۔ یہ بھی ایسا اُصول ہے جو وضع کر کے بہت سی کمزور روایتوں کو داخل کرنے کی کوشش کی گئی۔
محمد بن حسن الشیبانی: ضعیف قرار پائے
معلوم ہو کہ خود امام محمد بن حسن رحمہ اللہ پر بھی جرح ملتی ہے کہ وہ حدیث میں ضعیف تھے۔ (لسان المیزان وغیرہ)۔ اس کے باوجود فقہِ حنفی کے بہت سے مسائل ان ہی کی روایات کی بنیاد پر قائم کیے گئے ہیں۔
"اذا تعارضا تساقطا”
- اگر قرآن کی دو آیات میں باہمی تعارض ہو جائے تو "دونوں آیات گر جاتی ہیں” (تساقطا)۔ (نور الانوار ص197)۔ یہ تو قرآن کے تقدس اور اس کے "لا یأتیہ الباطل” عقیدے کے خلاف ہے۔ قرآن مجید میں آیات کا باہمی تعارض نہ ہونا ہمارا ایمان ہے۔ تعارض تو مقلدین کے ناقص استدلال کے سبب پیدا ہوتا ہے۔
ایک اور تضاد: صحابی کی تقلید واجب، مگر…
- نور الانوار ص220 میں لکھا ہے کہ "صحابی کا قول واجب الاتباع ہے” اور اُسے قیاس پر مقدم کیا جائے گا۔ جبکہ اسی کتاب میں دوسرے مقام پر کہا گیا کہ "غیر فقیہ صحابی کا قول قیاس کے خلاف ہو تو اسے رد کیا جائے گا۔” (دیکھیے قاعدہ نمبر 15)۔ ایک ہی کتاب میں ایک دوسرے کے بالکل مخالف اُصول ملتے ہیں، جو واضح تضاد ہے۔ پھر عملاً بھی احناف نے جہاں چاہا صحابی کے قول کو چھوڑ کر قیاس کو ترجیح دی۔
اجماع امت کے لیے شرائط
- حنفی اُصولیوں کا قاعدہ ہے کہ مجتہدین کا کسی مسئلے پر اجماع امت کے لیے حجت ہے۔ یہ بات درست تو ہے، مگر اس کے لیے کچھ شرائط ہیں:
– تمام علما کا یقینی طور پر کسی مسئلے پر متفق ہونا ثابت ہو، جو عملاً بہت مشکل ہے۔
– اس "اجماع” کا ماخذ بھی قرآن و سنت ہی ہو۔
– اجماع تک رسائی کی خبر کا بھی متواتر ہونا ضروری ہے۔
بہت سی جگہوں پر مقلدین بے سوچے سمجھے اجماع کا دعویٰ کر بیٹھتے ہیں جو ثابت کرنا ناممکن ہوتا ہے۔
قیاس کی اصل حقیقت
- قیاس کے بارے میں حنفی فقہ میں عموماً بڑے وسیع حدود کا تصور پایا جاتا ہے: ہر جگہ قیاس، حتی کہ بعض دفعہ نصوص پر بھی مقدم کر دیا جاتا ہے، اور یہی قول کہ "یہ مسئلہ خلافِ قیاس ہے” وغیرہ۔
درحقیقت:
– قیاس یا اجتہاد مجتہد کی اپنی ضرورت ہو سکتی ہے، مگر اسے مستقل ماخذ شمار نہیں کیا جا سکتا۔
– عبادات میں قیاس "اصل” نہیں ہوتا؛ وہاں نصِ شریعت (توقیفی طریقوں) ہی کا اعتبار ہے۔
– قیاس کے ذریعے قرآن و سنت سے نئے حکم گھڑ لینا اور اس کا التزام امّت پر ڈال دینا جائز نہیں۔
– قیاس کا دروازہ تو ہمیشہ کھلا ہے، مگر یہ ضروری ہے کہ مستند عالم کتاب و سنت سے ہم آہنگ رہ کر ہی قیاس کرے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (اعلام الموقعین ج1 ص337) فرماتے ہیں کہ کتاب و سنت میں ہر چیز کا حل موجود ہے۔ قیاس صرف اس وقت کرنا پڑتا ہے جب عالم پر کوئی نص مخفی رہ جائے۔ پھر اگر قیاس اس نص کے موافق ہو تو درست، ورنہ رد ہو جائے گا۔
خلاصہ کلام
- حنفی فقہ کے کئی بڑے اصول اُصولِ فقہ کی کتابوں میں ایسے بیان ہوئے ہیں جن پر عمل کرنے سے قرآن و سنت کے واضح دلائل پس پشت رہ جاتے ہیں۔
- بعض اُصول ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہیں، جس سے اُصولی کتابوں میں انتشار بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔
- قرآن و حدیث سے بڑے پیمانے پر ثابت شدہ مسائل کو محض قیاس کی بنا پر ترک کرنا قطعاً درست نہیں۔
- کتاب و سنت ہی دینِ اسلام کا اصل سرمایہ ہیں، باقی چیزیں (قیاس، استدلالات، عرف، استحسان وغیرہ) سب ان کے تابع ہیں۔
- جب اُصول ہی کمزور اور خود ساختہ ہوں تو ان پر مبنی فروعات میں بھی بے شمار نقائص پیدا ہو جاتے ہیں۔
دینِ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ ہم تعصب کی عینک اتار کر قرآن و حدیث کی روشن دلیل کو فوقیت دیں۔ اگر کوئی اُصول یا قاعدہ کتاب و سنت کے موافق ہو تو اسے خوش دلی سے قبول کیا جائے، اور جو اس سے متصادم ہو، اُسے چھوڑ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب و سنت کی صحیح سمجھ اور پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔