اشیاء کی قیمتیں مقرر کرنا
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا حکومت یا کوئی اور ذمہ دار اشیاء کی قیمتیں مقرر کر سکتا ہے؟ شریعت کی رو سے مطلع فرمائیں۔
جواب : عہدِ رسالت میں ایک مرتبہ مدینہ میں اشیاء کے نرخ بڑھ گئے جس پر لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر شکایت کی جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
«غلا السعر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، قد غلا السعر فسعر لنا، فقال:” إن الله هو المسعر القابض الباسط الرازق، إني لارجو، ان القى ربي وليس احد يطلبني بمظلمة فى دم ولا مال » [ابن ماجه، كتاب التجارات، باب فى كره ان يسعر2200، ابوداؤد 3451، احمد 156/3، مسند ابي يعلي 160/5، بيهقي 29/6، دارمي 249/2، طبراني كبير 761]
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں (مدینہ میں) چیزوں کے نرخ بڑھ گئے، لوگوں نے کہا: ”اے اللہ کے رسول ! نرخ بہت بڑھنے لگے ہیں، آپ ہمارے لیے قیمتیں مقرر فرما دیں۔“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یقیناًً اللہ تعالیٰ ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے، وہی مہنگا کرنے والا ہے، وہی سستا کرنے والا ہے اور وہی رزق دینے والا ہے، میں اس بات کا امیدوار ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملوں کہ کوئی شخش مجھ سے خون یا مال میں ظلم کی بنا پر مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔“
اس حدیث کے آخری الفاظ قابل توجہ ہیں : ”میں اس بات کا امیدوار ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ مجھ پر کسی کا خونی یا مالی حق نہ ہوص“ اس سے معلوم ہوا کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنا گاہک یا دکاندار کسی ایک پر ظلم ہے، جس کی ذمہ داری قبول کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آمادہ نہ تھے۔
حکومت جو اشیاء کی قیمتوں پر کنٹرول حاصل کرتی ہے اس کی ایک صورت یہ ہے کہ حکومت اعلان کر دیتی ہے کہ فلاں فلاں اشیاء کی قیمتیں یہ ہیں، اس سے زیادہ قیمت پر یہ اشیاء فروخت نہیں کی جا سکتیں۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے اشیاء کی قیمتیں مقرر کر کے باقاعدہ لسٹ دکانوں پر آویزاں کر دی جاتی ہیں تاکہ دکاندار اس سے زیادہ قیمت وصول نہ کر سکے اور اس کی چیکنگ کے لیے گاہے بگاہے حکومت چھاپے مارتی ہے لیکن اس کی خرابی یہ ہوتی ہے کہ دکاندار اس ریٹ پر ردی اور ناکارہ اشیاء فروخت کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اگر کوئی خریدار خالص اور عمدہ چیز کا طلب گار ہو تو اس سے علیحدہ ریٹ طے کرتے ہیں، البتہ اگر کوئی حکومتی آدمی آ کر دکاندار سے اس مقرر ریٹ پر چیز طلب کرے تو دکاندار اسے خالص چیز مہیا کرتا ہے تاکہ کہیں وہ پکڑا نہ جائے اور جرمانہ یا سزا سے بچ جائے۔
اس کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ دکاندار اپنی کمیٹی کے افراد کے ذریعے یا کسی اور واسطے سے حکومتی عملہ کو رشوت دے کر بدیانتی پر مبنی حرکا ت کا مرتکب ہوتے ہیں اور گاہک کو ناخالص، ردی، بے کار اور گھٹیا اشیاء فروخت کرتے ہیں۔
اس کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ حکومت جس چیز پر کنٹرول کرتی ہے، ملک کے مختلف حصوں میں اس کے ڈپو مقرر کر دیتی ہے تاکہ ان ڈپوؤں سے وہ چیز مقررہ ریٹ پر حاصل کی جا سکے۔ اس سے بھی بد دیانتی کی متعدد راہیں کھلتی ہیں۔ ڈپو ہولڈرز اپنے واقف کار، عزیز و اقارب وغیرہ کو تو اشیاء فراہم کرتے ہیں جب کہ دیگر بہت سے افراد کو محروم رکھتے ہیں، بلکہ بہت سے افراد اس طرح ڈپوؤں پر ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ عورتیں اور بچے سارا دن لائنوں میں لگے ذلیل ہو رہے ہوتے ہیں اور ڈپو ہولڈرز ایسے افراد سے رشوت وصول کر کے اشیاء کو بچا کر بازار میں مختلف دکانداروں کو بلیک میں فروخت کرتے ہیں۔ اس طرح چور بازاری کا نیا دروازہ کھل جاتا ہے۔ بہرکیف اس طرح کی کئی خرابیاں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جن سے خریدار اور دکاندار کے درمیان کی جرائم جنم لیتے ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : تجارت اور لین دین کے مسائل و احکام
مذکورہ حدیث کی شرح میں قاضی شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
”اس حدیث اور اس معنی کی جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان سے قیمتوں کے کنٹرول کی حرمت میں استدلال کیا گیا ہے اور قیمتوں پر کنٹرول کرنا ظلم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو اپنے مالوں کے تصرف کا اختیار دیا گیا ہے اور قیمتوں پر کنٹرول ان پر مالی تصرف میں رکاوٹ ہے جب کہ حاکم وقت مسلمانوں کی خیرخواہی پر مامور ہے۔ اس کے لیے گاہک کو سستے داموں اشیاء کی خریداری میں نظر کرنا دکاندار کے لیے قیمت بڑھانے کی مصلحت میں نظر کرنے سے زیادہ بہتر نہیں ہے۔ جب یہ دونوں معاملے آمنے سامنے ہوں تو اس وقت لازم ہے کہ فریقین (دکاندار اور گاہک) کو اپنے معاملے میں اجتہاد کا اختیار دیا جائے۔ سودا بیچنے والے کو اس مرضی کے خلاف بیچنے پر پابند کرنا للہ تعالیٰ کے اس فرمان کے خلاف ہے : ”اے ایمان والو ! اپنے مالوں کو آپس میں ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس صورت کے کہ تمھاری تجارت باہمی رضامندی سے ہو۔“ جمہور علماء کا یہی مذہب ہے۔ [نيل الاؤطار 248/5]
اسلامی معاشرے میں چونکہ تجارت بالکل آزاد ہے، اس لیے ہر چیز کھلے عام فروخت ہونی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں تاجر برادری کے لوگ متقی، پرہیزگار اور صالح ہوتے تھے اور وہ مناسب ریٹ پر اشیاء فروخت کرتے تھے۔ قیمتوں کا اتار چڑھاؤ تاجروں کی بدنیتی پر نہیں ہوتا تھا بلکہ سامانِ فروخت کی کمی اور اس کی کثرتِ طلب کی بنا پر قیمتیں چڑھ گئی تھیں۔ ديكهيے : [مجلة البحوث الإسلامية 208/1]
لیکن جب اشیائے خوردنی میں گرانی اور ریٹ کا اضافہ خود تاجروں کا پیدا کردہ ہو اور وہ عامۃ الناس کے پاس اشیائے خورد و نوش آسانی سے نہ پہنچنے دیتے ہوں تو یہ تاجر برادری کا ظلم ہے اور عوام الناس کی بھلائی کی خاطر ان کا ظلم روکنا عین انصاف حکومت کا حق ہے، تو اس ایک صورت میں اگر کنٹرول ہو جائے تو کوئی شرعی قباحت نہیں کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کنٹرول کرنے سے انکار کیا تھا تو اس کے اسباب قدرتی تھے، تاجر برادری کے پیدا کردہ نہیں تھے، باہر سے غلا نہیں پہنچ رہا تھا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”کنٹرول ریٹ بعض صورتوں میں ناجائز اور ظلم ہے اور بعض صورتوں میں عدل و انصاف اور جائز ہے۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: