سوال
کیا اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری سود پر مبنی ہوتی ہے؟ ایک دوست نے مشورہ دیا کہ چار یا پانچ لاکھ روپے انویسٹ کریں اور ماہانہ ستائیس یا اٹھائیس ہزار روپے منافع حاصل کریں۔ میں نے کہا کہ پہلے معلوم کرلوں کہ یہ سود تو نہیں۔
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ ،فضیلۃ الشیخ فہد انصاری حفظہ اللہ
اسٹاک ایکسچینج کو نہ مکمل طور پر حلال کہا جا سکتا ہے اور نہ مکمل طور پر حرام۔ اس کا حکم شرعی شرائط پر منحصر ہے۔ اگر شرعی اصولوں کی پاسداری ہو تو یہ حلال ہوگا، ورنہ حرام۔ اس کی وضاحت درج ذیل ہے:
اسٹاک ایکسچینج کی نوعیت
◈ کمپنی کے حصے: کمپنیاں اپنے حصے (شیئرز) بنا کر لوگوں کو فروخت کرتی ہیں اور انہیں شراکت کی دعوت دیتی ہیں۔
◈ دعویٰ مضاربت کا: اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کو عمومی طور پر مضاربت یا مشارکت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، لیکن اکثر شرعی اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
غیر یقینی صورتحال
◈ بعض اوقات حصص خریدار کے قبضے میں نہیں آتے۔
◈ گڈ وِل (Goodwill) اور دیگر غیر حقیقی معاملات کے ذریعے نظام کو خراب کیا جاتا ہے۔
◈ اس میں ظلم، نقصان، دھوکہ، سٹہ، اور غرر کے پہلو پائے جاتے ہیں۔
احتیاط اور شرعی تقاضے
◈ فتویٰ لینا ضروری: اس مسئلے پر کسی معتبر دینی ادارے سے فتویٰ حاصل کریں۔
◈ کمپنی کا جائزہ: یہ دیکھنا ضروری ہے کہ:
کمپنی جائز کام کرتی ہو۔
لین دین میں دھوکہ اور غیر یقینی نہ ہو۔
سرمایہ واقعی ملکیت میں ہو یا صرف دعویٰ نہ ہو۔
مضاربت کے اصول
◈ شراکت داری: ایک شخص کی محنت اور دوسرے کا سرمایہ شامل ہو۔
ماہانہ مقرر منافع کا مسئلہ
◈ اگر انویسٹر کو ماہانہ مقررہ منافع ملے تو یہ سود کے قریب ہوگا، کیونکہ یہ نفع اور نقصان کی شراکت داری کے اصول کے خلاف ہے۔
◈ درست طریقہ یہ ہے کہ نفع میں سے فیصد طے کیا جائے، اور اگر نقصان ہو تو سرمایہ کار نقصان برداشت کرے اور محنت کرنے والے کی محنت ضائع ہو۔
خلاصہ
◈ اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری شرعی اصولوں کی پاسداری کے بغیر درست نہیں۔
◈ ایسے معاملات سے بچنا چاہیے جب تک آپ کسی معتبر فتویٰ کے ذریعے مطمئن نہ ہوں۔
◈ عمومی طور پر اس میں دھوکہ، سٹہ اور غرر کے پہلو پائے جاتے ہیں، لہذا احتیاط لازم ہے۔