اسلام کے تعزیری قوانین: حکمت اور معنویت

اعتراضات اور پس منظر

اسلامی تعزیری قوانین پر اعتراض کرنے والے افراد اکثر ان قوانین کو غیر انسانی اور وحشیانہ قرار دیتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سزائیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں اور موجودہ دور میں ان کا اطلاق ممکن نہیں۔ خاص طور پر مغربی تعلیم یافتہ افراد، جو اسلام کا مطالعہ براہ راست نہیں کرتے بلکہ مغربی نقطہ نظر سے کرتے ہیں، ان اعتراضات کو تقویت دیتے ہیں۔

اعتراضات کا پس منظر

➊ قدیم قوانین کا تصور: اعتراضات کرنے والے اسلام کے تعزیری قوانین کو قدیم اور غیر مہذب سمجھتے ہیں، اور یہ خیال کرتے ہیں کہ موجودہ دور میں ان کا نفاذ ممکن نہیں۔

➋ سزاؤں کی بے رحمی: کچھ افراد کا دعویٰ ہے کہ اسلام نے جرائم پر جو سزائیں تجویز کی ہیں، وہ انتہائی سنگ دلانہ ہیں اور جدید معاشرہ ان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اصل حقیقت

یہ اعتراضات کرنے والے افراد جرائم کے اثرات اور سماج میں پیدا ہونے والے فساد کو نظر انداز کرتے ہیں۔ جیسے جسم کے کسی حصے میں پھوڑا بن جائے تو علاج کے لیے اسے کاٹنا ضروری ہو جاتا ہے، اسی طرح جو مجرم سماج میں بگاڑ پیدا کر رہا ہو، اسے بھی معاشرے سے دور کرنا دانشمندی ہے۔ یہ ایک سماج کی حفاظت اور انصاف کے لیے ضروری ہے۔

اہانت آمیز سزائیں

اسلامی سزاؤں کو رسوا کن قرار دینے والے افراد یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر سزا میں کچھ نہ کچھ ذلت کا پہلو ہوتا ہے۔ اسلام میں سزاؤں کو اس لیے بھی سخت رکھا گیا ہے تاکہ ان کی رسوائی دوسروں کے لیے عبرت بنے اور وہ ان جرائم سے بچ سکیں۔

انسانی حقوق کا تحفظ

ایک اور اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اسلامی سزاؤں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اعتراض کرنے والے مجرم کے حقوق کی بات کرتے ہیں، مگر وہ مقتول اور مظلوم کے حقوق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ قاتل کی جان کی حفاظت پر زور دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ مقتول کی جان بھی اتنی ہی محترم تھی۔ اگر قاتل نے کسی کی جان لی ہے، تو اس کا زندہ رہنا بھی انصاف کے خلاف ہے، بشرطیکہ مقتول کے ورثا اسے معاف نہ کریں۔

امنِ عامہ کی حفاظت

انسانی حقوق کے علمبردار صرف مجرموں پر رحم کرتے ہیں اور باقی انسانیت کی پرواہ نہیں کرتے۔ ایسے قوانین جو مجرموں کو نرمی فراہم کرتے ہیں، جرائم پیشہ افراد کے لیے کھیل بن جاتے ہیں۔ اسلامی ممالک میں جہاں اسلامی سزائیں نافذ ہیں، وہاں جرائم کی شرح نہایت کم ہے، جیسے سعودی عرب میں لوگ بغیر دکان بند کیے نماز پڑھنے جاتے ہیں اور انہیں کوئی خوف نہیں ہوتا کہ ان کا سامان چوری ہو جائے گا۔

اسلام کی رحمت و شفقت

اسلام سے بڑھ کر کوئی مذہب انسانیت کی فلاح اور شفقت کا درس نہیں دیتا۔ میدان جنگ میں بھی دشمنوں کے حقوق کا احترام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور مذہبی افراد پر ہاتھ اٹھانے سے روکا گیا ہے۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی کے مطابق، اسلام کے تعزیری قوانین کو وحشیانہ قرار دینا دراصل لادینی تہذیب کا اثر ہے، جو مجرموں کو رعایت دیتی ہے اور اصل جرائم کو معمولی سمجھتی ہے۔

مآخذ

➊ ابوزید، سہ ماہی ایقاظ، "ریپ کی سزا کے لئے چار گواہ! حقیقت کیا ہے؟”

➋ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، "اسلام کے تعزیری قوانین کی معنویت”

➌ مولانا مفتی سید عبد القدوس ترمذی، "شرعی سزاؤں کی تعریف اور ان کی اقسام”

➍ حسن مدنی، "اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش بسلسلہ ڈی این اے”

➎ ایم اے زیدی، "اسلام میں جرائم کو روکنے کے ضوابط”

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!