دین کا وسیع مفہوم
اسلام میں "دین” ایک جامع تصور ہے، جو دل کی نیت سے لے کر جسمانی عبادات، روزمرہ معاملات، سماجی تعلقات، سیاست، معیشت، اور ریاستی امور جیسے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ تصور غیراللہ کی عبادت سے اجتناب کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ کی عبادت پر مبنی ہے، جسے "اسلام” کہا جاتا ہے۔
علمائے اسلام اور مسلمانوں کے علمی ذخائر میں دین ہمیشہ ایک مکمل نظامِ حیات کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس دائرے میں فقہ و حدیث کی کتب سے لے کر مسلمانوں کے تاریخی وسائل تک، ہر جگہ "دین” کو ایک جامع نظام کے طور پر سمجھایا گیا ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔ مثال کے طور پر، فقہ حنفی کی معروف کتاب "فتح القدیر” اور حدیث کی کتاب "صحیح مسلم” کے موضوعات میں عبادات سے لے کر ریاستی اور قانونی امور تک سب شامل ہیں۔
مذہب کا محدود تصور
دوسری طرف "مذہب” کا تصور، جو عربی کا لفظ ہونے کے باوجود مسلمانوں کے علمی ذخائر میں مستعمل نہیں، آج عام طور پر انگریزی کے لفظ "ریلیجن” کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور محض روحانیات، اخلاقیات، رسوم، اور انفرادی عبادات تک محدود ہے۔ اس میں اجتماعی و ریاستی امور شامل نہیں ہوتے۔
سیکولرزم اور گلوبلائزیشن نے "مذہب” کی اس محدود تعریف کو فروغ دیا ہے
سیکولر حلقے اس تصور کو عام کر رہے ہیں کہ دین صرف ذاتی عبادات تک محدود ہو، اور سیاست، معیشت، اور قانون کے میدان میں سیکولرزم کو دین کے طور پر قبول کیا جائے۔
سیکولرزم کا ایجنڈا: دین کو محدود کرنے کی کوشش
اسلام کو "مذہب” تک محدود کرنے کی سازش
مغربی طاقتوں نے یہ واضح ایجنڈا طے کیا ہے کہ مسلمانوں کو ان کے دین سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ یہ سازش نہ صرف سیاسی و ریاستی سطح پر دین کو ختم کرنے کی ہے، بلکہ مسلمانوں کے ذہنوں میں دین کا تصور ہی بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ اسلام کو صرف ایک "مذہب” کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں، جبکہ دین کے تمام پہلو، جیسے سیاست، معیشت، اور معاشرتی نظام، سیکولرزم کے تحت کر دیے جائیں۔
گلوبلائزیشن اور سیکولرزم کے تقاضے
- مسلمانوں کو دینِ اسلام چھوڑ کر سیکولرزم قبول کرنا ہوگا۔
- اسلام کو مذہب کی حیثیت سے رکھنے کی اجازت ہوگی، لیکن سیاست اور قانون میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔
- فقہ، حدیث، اور دین کے دیگر علمی ذخائر کو مسلمانوں کے ذہنوں سے مٹایا جائے گا تاکہ وہ اسلام کے جامع تصور سے بیگانہ ہو جائیں۔
علمی و فقہی ذخائر پر حملہ
مسلمانوں کے علمی و فقہی ذخائر ہمیشہ دین کے جامع تصور کے محافظ رہے ہیں۔ ان ذخائر میں نہ صرف عبادات بلکہ ریاستی امور، معیشت، سیاست، اور قانون کے تمام پہلو شامل ہیں۔ اس لیے سیکولرزم کا ایجنڈا یہ ہے کہ ان علمی ذخائر کو مکمل طور پر ختم کیا جائے یا ان پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں اپنے دین کے صحیح مفہوم سے لاعلم رہیں۔
دین کا محدود تصور قبول کرنے کا خطرہ
سیکولرزم کے دائرے میں "مذہب” کی قید
سیکولرزم کا کہنا ہے کہ ریاست کے معاملات مذہب کے بجائے "مشترکہ انسانی اصولوں” پر چلائے جائیں گے۔ یہ اصول دراصل سیکولرزم کے قوانین ہیں، جو دین اسلام کے تمام پہلوؤں کو بے دخل کر کے صرف عبادات اور مذہبی رسومات تک محدود کر دیتے ہیں۔
مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ "مذہب” کے طور پر اسلام کو مانیں، لیکن "دین” کے طور پر سیکولرزم کو قبول کریں۔
اسلام کی جامعیت کے خلاف جنگ
اسلام ہمیشہ "دین” کے طور پر معاشرتی، سیاسی، اور ریاستی نظام کا دعویٰ کرتا رہا ہے، اور مسلمانوں نے اسے ہمیشہ ایک مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ لیکن سیکولر طاقتیں اسلام کی اس جامعیت کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔
یہ جنگ اب عملی سطح سے آگے بڑھ کر مسلمانوں کے ذہنوں میں جاری ہے۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ اسلام کو ذہنی اور فکری طور پر بھی دین کے بجائے مذہب کے طور پر قبول کیا جائے۔
مسلمانوں کا ردعمل: دین کے جامع تصور کا دفاع
دین کا علمی دفاع
مسلمانوں کو اپنے علمی و فقہی ذخائر کے ذریعے دین کے جامع تصور کا دفاع کرنا ہوگا۔ ان کتب میں موجود دین کے مکمل نظام کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے تاکہ وہ سیکولرزم کے محدود تصور کو رد کر سکیں۔
دین کو ریاستی و سماجی امور میں نافذ کرنا
اسلام محض ایک روحانی مذہب نہیں بلکہ ایک ایسا نظام ہے جو ریاست، معیشت، اور سیاست جیسے تمام شعبوں کو اللہ کی حاکمیت کے تابع کرتا ہے۔ مسلمانوں کو اپنے دین کے اس پہلو کا شعور حاصل کرنا ہوگا اور اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔
امت کو بیدار کرنا
مسلمانوں کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ سیکولرزم کے تحت انہیں صرف انفرادی عبادات کی اجازت دی جا رہی ہے، جبکہ اجتماعی اور ریاستی امور میں اسلام کو ختم کیا جا رہا ہے۔ امت کو خبردار کرنا ہوگا کہ وہ اس سازش کا شکار نہ ہو اور دین کے حقیقی تصور پر ثابت قدم رہے۔
خلاصہ
یہ جنگ دراصل "اسلام کو دین کے طور پر ماننے” اور "اسلام کو محض مذہب تک محدود کرنے” کے درمیان ہے۔ سیکولر طاقتوں کا ہدف مسلمانوں کو ان کے دین سے ہٹانا ہے، جبکہ مسلمانوں کی بقا اور سربلندی دین اسلام کی جامعیت پر ایمان اور اس کے نفاذ میں ہے۔