اسلام کی توسیع: تلوار یا دلوں کی تبدیلی؟
بہت سے افراد طاقت اور جبر کے ذریعے زمینوں کے فاتح بنے، اور بہت سی بادشاہتیں اور آمریتیں بھی طاقت کے زور پر قائم رہیں۔ مفادات کی جنگوں میں بے شمار فیصلے میدان جنگ میں طے پاتے رہے ہیں۔ لیکن جب بھی کوئی انقلابی تحریک سامنے آتی ہے، اس کے مستقبل کا فیصلہ ہمیشہ عوامی رائے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ جب تک لوگوں کے دل کسی پیغام کو قبول کرنے کے لیے اندر سے آمادہ نہ ہوں اور وہ اپنے ذہن اور کردار کو اس پیغام کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے تیار نہ ہوں، تب تک صرف جبر اور طاقت کے بل پر حاصل کیے گئے حامی اس تحریک کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوتے۔ بلکہ ایسے حامی الٹا اس تحریک کی مکمل ناکامی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اسی لیے ہر اصولی تحریک کی فطرت تعلیمی ہوتی ہے، اور اس کے حامیوں میں تربیت اور معلمانہ شفقت کی روح کارفرما ہوتی ہے۔

اسلام کے مخالفین کا پروپیگنڈہ

اسلام کے مخالفین ابتدا سے ہی یہ پروپیگنڈہ کرتے آ رہے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے اور لوگ تلوار کے دباؤ میں آ کر مسلمان ہوئے۔ حالانکہ، ایک ایسا معاملہ جو انسان کے باطن سے تعلق رکھتا ہو، وہاں جبر کا عمل کیسے کامیاب ہو سکتا ہے اور کب تک چل سکتا ہے؟ معروف محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“یہ مملکت (مدینہ کی ریاست) ابتدا میں ایک شہری ریاست تھی، لیکن یہ مکمل طور پر ایک شہر پر مشتمل نہیں تھی، بلکہ شہر کے ایک حصے میں قائم کی گئی تھی۔ تاہم، اس کا دائرہ کار بہت تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔ اس توسیع کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ صرف دس سال بعد، جب رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا، اس وقت مدینہ ایک معمولی شہری ریاست نہیں رہی، بلکہ ایک وسیع سلطنت کا دارالخلافہ بن چکا تھا۔ تاریخی شواہد کے مطابق، اس وسیع سلطنت کا رقبہ تقریباً تین ملین (تیس لاکھ) مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا تھا۔ دوسرے الفاظ میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ دس سال تک روزانہ اوسطاً 845 مربع کلومیٹر کا اضافہ اس ریاست کے رقبے میں ہوتا رہا۔

تین ملین مربع کلومیٹر کا یہ رقبہ فتح کرنے کے دوران دشمنوں کے جتنے لوگ مارے گئے، ان کی تعداد مہینے میں دو سے بھی کم ہے۔ اگر ہم حساب کریں تو دس سال میں 120 مہینے ہوتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ مجموعی طور پر 240 سے بھی کم دشمن ان جنگوں میں مارے گئے۔ حتی کہ مسلمانوں کے شہداء کی تعداد بھی ان کے مقابلے میں کم تھی۔ مسلمانوں کا سب سے زیادہ نقصان جنگ اُحد میں ہوا تھا، جہاں 70 مسلمان شہید ہوئے اور یہ نقصان بھی مسلمانوں کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہوا۔ بہرحال، مجموعی طور پر میدان جنگ میں مارے جانے والے دشمنوں کی تعداد مہینے میں دو سے بھی کم رہی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے عمل سے دنیا کے حکمرانوں اور فاتحین کو یہ درس دیا کہ دشمن سے ضرور مقابلہ کرو اور انہیں شکست دینے کی کوشش کرو، لیکن بلاوجہ خون نہ بہاؤ۔ مقصد یہ ہے کہ آج کا دشمن، جو غیر مسلم ہے، ممکن ہے کہ کل مسلمان ہو جائے یا اس کے بیوی بچے اور آئندہ نسلیں مسلمان ہو جائیں۔ اس لیے ایسا کوئی قدم نہ اٹھایا جائے جس پر بعد میں پچھتانا پڑے۔

(اقتباس از خطبات بہاولپور، ڈاکٹر محمد حمید اللہ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے