تعلیمی پس منظر
نوے کی دہائی کے آخری برسوں میں گلگت پبلک سکول میں دسویں جماعت کے طالبعلم کے طور پر، روایتی نظام تعلیم میں خلاصے رٹنے کا عام رواج تھا۔ انگریزی کے مضمون میں شامل ناول "گڈ بائے مسٹر چپس” کی کہانی کو یاد کرنا اور پھر امتحان میں بہترین جملوں میں بیان کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ اسی دوران ناول کی تمہیدی لائن "His personality was an odd combination of strange contradictions” یاد رہ گئی، جو وقت کے ساتھ مختلف متضاد اصطلاحات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوئی۔
متضاد اصطلاح: "غیر سیاسی اسلام”
"غیر سیاسی اسلام” ایک ایسی متضاد اصطلاح ہے جو جدید ذہنوں میں پروان چڑھی ہے۔ اس تصور کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاست کی تعریف اور اس کے دائرہ کار پر غور کیا جائے۔ مغربی فلسفے کے زیرِ اثر ہمارے معاشرے میں سیاست کو عمومی طور پر یونانی یا یورپی نظریات کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے، جیسے افلاطون کی خیالی ریاست یا روسو کی جمہوری سیاست۔ تاہم، اس بات پر غور ضروری ہے کہ ہمارے اپنے نظام میں سیاست کا کیا مفہوم ہے اور اسلام، بطور ضابطہ حیات، سیاست کو کیسے دیکھتا ہے۔
سیاست: تعریف اور دائرہ کار
"سیاست” کا لفظ عربی زبان کے "سیس” سے نکلا ہے، اور اردو میں اس کے معانی "ملکی تدبیر و انتظام” اور "حکومت کرنے کی حکمت عملی” کے طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ (اردو لغت)۔ انگریزی میں سیاست کا مترادف لفظ Politics ہے، جو یونانی زبان کے لفظ "Politikos” سے اخذ کیا گیا، جس کے معانی "شہری معاملات” ہیں۔
موجودہ دور میں میریم ویبسٹر ڈکشنری میں سیاست کی تعریف یوں کی گئی ہے:
"کسی حکومت یا ریاست کی پالیسیوں کو تشکیل دینے اور ان پر اثرانداز ہونے کے لیے اختیار کی گئی حکمت عملیوں اور عمل کا مجموعہ”۔ (Merrium Webster Dictionary)
اسلامی سیاست: ایک نظریاتی خاکہ
تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مدینہ میں قائم ہونے والی پہلی اسلامی ریاست نہ صرف دینی اصولوں پر مبنی تھی بلکہ اس کا قیام سیاسی حکمت عملی کا شاہکار بھی تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے دین اور سیاست کو ایک وحدت کے طور پر پیش کیا، جس میں دونوں شعبے ایک دوسرے سے جدا نہیں کیے جا سکتے تھے۔
دین اور سیاست کے تعلق پر احادیث
صحیح بخاری کے باب "احادیث الانبیاء” میں نبی اکرم ﷺ کا فرمان موجود ہے:
"بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کرتے تھے، جب کوئی نبی وفات پاتا تو اس کا خلیفہ نبی ہوتا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔”
(صحیح بخاری)
یہ حدیث دین اور سیاست کے گہرے تعلق کو واضح کرتی ہے، جہاں انبیاء کرام سیاست کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے۔
مغربی ریاست کا تصور اور اس کے اثرات
یورپ میں جدید ریاست کے تصور نے دین کو امورِ سلطنت سے بے دخل کر کے جمہوریت کو فروغ دیا۔ اس نئے نظام کے تحت مذہب کو گرجا تک محدود کر دیا گیا، اور اجتماعی فیصلوں کو اکثریت کی رائے پر منحصر کر دیا گیا۔ یہی فلسفہ بعد میں دنیا کے مختلف خطوں پر غالب آ گیا۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کے بعد انگریزی نظام اور نظریات بھی یہاں متعارف ہوئے۔
تحریک پاکستان کا پس منظر
برطانوی استعمار کے خلاف مزاحمتی تحریکوں نے تحریکِ پاکستان کی صورت اختیار کی، لیکن اس نئی مملکت میں بھی غالب قوم کے اثرات کسی نہ کسی صورت موجود رہے۔ آج انہی اثرات کے زیرِ اثر کچھ لوگ دین کو سیاست سے جدا کرنے کی وکالت کرتے ہیں اور مغربی جمہوریت کو ایک مثالی نظام سمجھتے ہیں۔
نبی ﷺ کی سیاسی بصیرت: مستشرقین کی رائے
پروفیسر ولیم منٹگمری واٹ، جو اسلام پر غیر جانبدارانہ تحقیق کے لیے مشہور ہیں، نے اپنی کتاب "Muhammad: Prophet and Statesman” میں نبی اکرم ﷺ کی سیاسی صلاحیتوں کو تسلیم کیا ہے۔ ان کے مطابق:
"اسلام نے ایک مکمل معاشی، سماجی اور سیاسی نظام پیش کیا، جس میں مذہب ایک لازمی جزو تھا۔”
(Muhammad at Medina. Oxford University Press, p. 224)
واٹ مزید لکھتے ہیں:
"عرب اس وقت کسی بھی نظام کو ایک اکائی کے طور پر دیکھتے تھے، اور مذہب کے بغیر سیاست اور معاشیات کا تصور ممکن نہیں تھا۔”
(Muhammad at Medina, p. 225)
اسلام کبھی غیر سیاسی نہیں رہا
اسلام کے بنیادی ماخذات، یعنی قرآن اور سنت، سیاسی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی مدنی زندگی اسلامی ریاست کے سیاسی اصولوں کی واضح تصویر پیش کرتی ہے۔
ریاستی نظام میں دین کی حیثیت
اسلامی ریاست کے نظام میں دین اور سیاست الگ الگ نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا مدینہ کے معاشرتی اور سیاسی نظام کو منظم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام کی سیاست زندگی کے ہر پہلو کو شامل کرتی ہے۔
نتیجہ: "غیر سیاسی اسلام” ایک بے بنیاد تصور
اسلام کو "غیر سیاسی” کہنا حقیقت سے انکار ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں سیاست، معاشرت، اور مذہب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ دین اور سیاست کو جدا کرنے کی کوشش دراصل مغربی استعمار کی سوچ کا اثر ہے، جو اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔