اسلام میں نکاح، رضامندی اور زبردستی نکاح کی ممانعت
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

اسلام میں زبردستی نکاح کے حوالے سے تعلیمات

اسلام میں نکاح کو ایک اہم اور مقدس معاہدہ قرار دیا گیا ہے، جس میں مرد اور عورت کی رضامندی بنیادی شرط ہے۔ زبردستی نکاح کے حوالے سے قرآن و حدیث اور صحابہ کرام کے اقوال واضح ہدایات فراہم کرتے ہیں، جن میں نکاح سے قبل فریقین کی مکمل رضامندی کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایسے تمام نکاحوں کو منسوخ کر دیا جن میں لڑکی یا لڑکے کی مرضی شامل نہ تھی۔ ذیل میں اس حوالے سے چند اہم احادیث اور اقوال کو عربی متن اور اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے:

1. حدیث خنساء بنت خذام (رضی اللہ عنہا)

عَنْ خِنْسَاءَ بِنْتِ خِذَامٍ الْأَنْصَارِيَّةِ: "أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَأَتَتْ النَّبِيَّ ﷺ، فَرَدَّ نِكَاحَهُ”.

ترجمہ: خنساء بنت خذام الانصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کی مرضی کے خلاف ان کا نکاح کر دیا، تو وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں اور آپ ﷺ نے ان کا نکاح منسوخ کر دیا۔

(صحیح بخاری، حدیث نمبر 5138)

2. حدیث ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لَا تُنْكَحُ الْأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ”. قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: "أَنْ تَسْكُتَ”.

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس سے مشورہ نہ لیا جائے، اور کنواری کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس سے اجازت نہ لی جائے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی اجازت کیسے معلوم ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کا خاموش رہنا (اجازت کی علامت ہے)۔

(صحیح بخاری، حدیث نمبر 5136)

3. حدیث جابر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ)

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَنَّ الْبِكْرَ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا، وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا”.

ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کنواری لڑکی سے اس کی اجازت لی جائے گی اور اس کی اجازت اس کا خاموش رہنا ہے۔

(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1419)

4. حدیث عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ)

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "إِنَّ جَارِيَةً بَكْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ، فَذَكَرَتْ أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ ﷺ”.

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور بتایا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر کر دیا ہے، تو نبی کریم ﷺ نے اسے اختیار دیا (کہ وہ چاہے تو نکاح کو برقرار رکھے یا منسوخ کرے)۔

(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1875)

5. صحابہ کرام کے اقوال

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ:

"شادی کے معاملے میں لڑکی کی رضا مندی ضروری ہے، اس کی مرضی کے بغیر نکاح جائز نہیں۔”

(مصنف عبدالرزاق، جلد 6، صفحہ 333)

نتیجہ

مندرجہ بالا احادیث اور صحابہ کرام کے اقوال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام میں زبردستی نکاح کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے واضح طور پر ایسے نکاحوں کو منسوخ کر دیا جن میں فریقین کی رضامندی شامل نہ تھی۔ والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی مرضی اور خواہش کا احترام کریں اور نکاح جیسے اہم معاملے میں انہیں آزادی سے اپنی رائے دینے کا حق دیں۔ اس طرح، اسلامی تعلیمات نکاح میں خوشی اور رضا کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں تاکہ گھرانے محبت اور سکون کا گہوارہ بن سکیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے