اسلام اور غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق
اسلام غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور عدل و انصاف پر مبنی ایک جامع نظام پیش کرتا ہے، جو مذہبی فریضہ اور شہری حقوق دونوں کو احاطہ کرتا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ میں غیرمسلم اقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور رواداری کی واضح ہدایات موجود ہیں۔
غیرمسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک
قرآن کریم ان غیرمسلموں کے ساتھ خیرخواہی اور انصاف کا حکم دیتا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ برسرِپیکار نہ ہوں اور نہ ہی سازشی سرگرمیوں میں ملوث ہوں۔ ارشادِ باری تعالیٰ:
"اللّٰهُ تَنهٰى عَنِ الَّذينَ لَم يُقٰتِلُوكُم فِى الدّينِ وَلَم يُخرِجوكُم مِن دِيٰرِكُم أَن تَبَرّوهُم وَتُقسِطوا إِلَيهِم”
’’اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دین کے معاملے میں نہیں لڑے اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔‘‘(الممتحنة: 8)
اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کے حقوق
- تحفظِ جان:
اسلامی ریاست میں مسلم اور غیرمسلم دونوں کی جان کو مساوی تحفظ دیا جاتا ہے۔ غیرمسلم رعایا کی جان کی حفاظت اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حدیثِ مبارکہ:
"جو کسی معاہد کو قتل کرے گا، وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے محسوس ہوتی ہے۔”
(بخاری شریف، کتاب الجہاد، باب اثم من قتل معاہدًا بغیر جرم، ج:1، ص:448)حضرت عمرؓ نے اپنی وصیت میں غیرمسلموں کی جان و مال کے تحفظ کی تاکید فرمائی:
"ذمیوں کے عہد کو پورا کیا جائے، ان کی حفاظت کی جائے، اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔”
(حضرت عمر کے سیاسی نظریے، ص:93، ابو یحییٰ امام خان) - تحفظِ مال:
اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کی جائیداد کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا۔ ان کی زمینوں یا جائیدادوں پر زبردستی قبضہ جائز نہیں۔
"خراج میں ان کا گدھا، ان کی گائے اور ان کے کپڑے نہ بیچنا۔”
(اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص:20)غیرمسلموں کو اپنی جائیداد میں مکمل تصرف کا حق حاصل ہوگا، اور ان کی جائیداد ان کے ورثاء کو منتقل ہوگی۔
- تحفظِ عزت و آبرو:
غیرمسلموں کی عزت و آبرو کو مسلمانوں کی طرح تحفظ حاصل ہوگا۔ ان کے ساتھ بدسلوکی، غیبت، یا توہین کرنا سخت منع ہے۔
"ذمیوں کو تکلیف دینا اور ان کی غیبت کرنا ویسے ہی حرام ہے جیسے ایک مسلمان کی۔”
(اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص:15) - عدالتی و قانونی مساوات:
اسلامی ریاست میں عدالتی قوانین تمام شہریوں پر یکساں لاگو ہوں گے۔ چوری، زنا، تہمت، اور قتل جیسے جرائم میں مسلم و غیرمسلم دونوں کے لیے برابر کی سزا ہوگی۔
"ان کے خون ہمارے خون کی طرح ہیں۔”
(نصب الرایہ، ج:2، ص:381)رسول اللہ ﷺ نے ایک مسلمان کے ہاتھوں قتل ہونے والے ذمی کے قصاص کا حکم دیا۔
(اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص:11)
- مذہبی آزادی:
غیرمسلموں کو اپنے عقائد، عبادات، اور مذہبی رسومات پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہوگی۔
"لا إِكراهَ فِي الدّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشدُ مِنَ الغَيِّ”
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح ہو چکی ہے۔‘‘(البقرہ: 256)
غیرمسلم اپنی عبادت گاہوں کی مرمت اور عبادات کے لیے آزاد ہوں گے۔ تاہم اسلامی شہروں (امصار المسلمین) میں کھلے عام مذہبی جلوس اور نئی عبادت گاہوں کی تعمیر کی اجازت نہیں ہوگی۔
- معاشی حقوق:
غیرمسلموں کو تجارت، صنعت و حرفت، اور دیگر ذرائع معاش میں مکمل آزادی دی گئی ہے۔ وہ اپنے مذہب کے مطابق شراب اور خنزیر کی خرید و فروخت بھی کرسکتے ہیں۔
"معاہدین کے اموال حق کے بغیر حلال نہیں ہیں۔”
(ابوداؤد، کتاب الاطعمہ، باب ما جاء فی اکل السباع) - سماجی تحفظ:
اسلامی ریاست غیرمسلم فقراء اور ضرورت مندوں کے لیے بیت المال سے مدد فراہم کرے گی۔ حضرت عمرؓ نے ایک ضعیف یہودی کو دیکھ کر فرمایا:
"یہ انصاف نہیں کہ ہم جوانی میں ان سے جزیہ لیں اور بڑھاپے میں انہیں بھیک کے لیے چھوڑ دیں۔”
(اسلام کا اقتصادی نظام، ص:151) - منصب و ملازمت:
غیرمسلموں کو اسلامی ریاست کے کلیدی مناصب (پالیسی ساز اور وزارت) پر فائز ہونے کی اجازت نہیں، تاہم دیگر تمام عہدوں اور ملازمتوں میں ان کے لیے دروازے کھلے ہیں۔
(بنیادی حقوق، ص:311)
- معاہدین کے حقوق:
وہ غیرمسلم جو صلح یا معاہدے کے ذریعے اسلامی ریاست کا حصہ بنے ہوں، ان کے ساتھ شرائطِ معاہدہ کے مطابق سلوک ہوگا۔ ان کے حقوق میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں کی جائے گی۔
"جو شخص کسی معاہد پر ظلم کرے گا یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا، قیامت کے دن میں اس کے خلاف مدعی بنوں گا۔”
(اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص:6)
نتیجہ
اسلام غیرمسلموں کے حقوق کے تحفظ کے لیے جامع اصول فراہم کرتا ہے، جو عدل، مساوات، اور رواداری پر مبنی ہیں۔ یہ حقوق انسانی عظمت اور انصاف کے حقیقی مظہر ہیں۔