اسلام ہمیں بھائی چارے، محبت، اور عفو و درگزر کا درس دیتا ہے
دوسروں کے عیب تلاش کرنا، ان پر تنقید کرنا یا انہیں لوگوں کے سامنے ظاہر کرنا، قرآن و حدیث کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ذیل میں قرآن، احادیث، اور صحابہ کرامؓ کے اقوال کی روشنی میں عیب جوئی کی مذمت تفصیل سے بیان کی گئی ہے:
قرآن کریم کی روشنی میں
سورۃ الحجرات (49:11-12):
"اے ایمان والو! نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور آپس میں ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد فسق کا نام رکھنا برا ہے۔ اور جو لوگ توبہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔”
یہ آیات مسلمانوں کو خبردار کرتی ہیں کہ تمسخر، تحقیر اور عیب جوئی سے اجتناب کریں۔
سورۃ النور (24:19):
"بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیل جائے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔”
یہ آیت ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو دوسروں کے عیبوں کو ظاہر کرنے یا پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں
پردہ پوشی کی فضیلت:
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔”
(صحیح مسلم)
یہ حدیث مسلمانوں کو ترغیب دیتی ہے کہ وہ دوسروں کے عیب چھپائیں اور انہیں ظاہر کرنے سے گریز کریں۔
عیب جوئی کا انجام:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جس نے اپنے بھائی کی عیب جوئی کی، اللہ تعالیٰ اس کے عیب کو ظاہر کرے گا، چاہے وہ اپنے گھر میں ہی کیوں نہ چھپا ہو۔”
(جامع ترمذی)
یہ حدیث عیب جوئی کرنے والوں کو تنبیہ کرتی ہے کہ ان کے اپنے عیب بھی ظاہر کیے جائیں گے۔
دوسروں کے عیب تلاش کرنے کی ممانعت:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کے عیبوں کی تلاش نہ کرے، کیونکہ جو شخص اپنے بھائی کے عیب تلاش کرے گا، اللہ اس کے عیب کو ظاہر کرے گا، اور جب اللہ کسی کے عیب ظاہر کرتا ہے تو وہ اسے رسوا کر دیتا ہے، چاہے وہ اپنے گھر کے اندر ہی ہو۔”
(سنن ابن ماجہ)
خلاصہ
قرآن و سنت اور صحابہ کے اقوال میں عیب جوئی کی سخت ممانعت ہے۔ یہ عمل اسلامی اخلاقیات کے خلاف ہے اور معاشرتی تفرقے اور دشمنی کو جنم دیتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے عیب چھپانے، خیرخواہی، اور ہمدردی کا مظاہرہ کریں۔ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی ایک صحت مند اور پرسکون معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔