اسلام میں صنفی عدل اور مرد و عورت کے حقوق
مستفاد: صالح المنجد

موجودہ دور میں صنفی عدل اور اس کی اہمیت

موجودہ دور میں صنفی عدل (Gender Justice) کا چرچا ہر طرف ہے، اور اسے عورتوں کی کامیابی کا اہم سنگِ میل سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے، دونوں کو ہر میدان میں برابر حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ تعلیم، ملازمت، صحت، سیاست، اور زندگی کے ہر پہلو میں عورت کو وہی حیثیت ملنی چاہیے جو مرد کو حاصل ہے۔ گویا ’عدل‘ کا مطلب برابری تصور کر لیا گیا ہے، اور اس مقصد کے لیے مختلف حکمت عملیاں اپنائی جا رہی ہیں، جن میں اقوام متحدہ کا ادارہ یو این ویمن نمایاں ہے، جو مرد و عورت میں مساوات قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

مساوات کی حقیقت اور اس کا نقصان

مساوات کا مطلب ہر حق اور ہر فرض میں مکمل برابری ہے، لیکن بعض اوقات یہ برابری خود ظلم بن جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کمیونزم نے معاشرتی ڈھانچے کو اس نکتے پر توڑ دیا کہ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہونی چاہیے، چاہے وہ والد اور بیٹے کا تعلق ہی کیوں نہ ہو۔ یہی سوچ صنفی مساوات کے نظریے میں بھی نظر آتی ہے، جہاں عورت اور مرد کو مکمل برابر قرار دینا فطری نظام کے خلاف ہو جاتا ہے۔

عدل کا حقیقی مطلب: قرآن کی روشنی میں

اسلام میں عدل کا مطلب ہے کہ ہر فرد کو اس کی صلاحیت اور ذمہ داری کے مطابق حق دیا جائے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے عدل کا حکم دیا ہے، لیکن مساوات (برابری) کا ذکر کہیں نہیں:
{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ}
بے شک اللہ تعالی عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔
(النحل: 91)

{وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ}
اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔
(النساء: 58)

قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ تمام لوگ ایک جیسے نہیں ہو سکتے:
{قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ}
کہہ دو، کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں؟
(الزمر: 9)

{قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ}
کہہ دو، کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہو سکتے ہیں؟
(الرعد: 16)

مرد و عورت کے درمیان عدل کی بنیاد

اسلام مرد و عورت کے درمیان برابری کی بجائے عدل کرتا ہے، کیونکہ اگر ہر معاملے میں برابری کی جائے تو کسی ایک پر ظلم ہو گا۔ دونوں جنسوں کی اپنی صلاحیتیں، کمزوریاں اور ذمہ داریاں ہیں، جن کی بنیاد پر شریعت نے ان کے حقوق و فرائض متعین کیے ہیں۔

شریعت کی نظر میں انسان ہونے کے ناطے مرد اور عورت برابر ہیں، اسی لیے اکثر عبادات اور معاملات میں دونوں پر یکساں احکامات لاگو ہوتے ہیں، جیسے:

  • وضو
  • نماز
  • روزہ
  • زکوٰۃ
  • حج

مرد و عورت کی فطری تقسیم

جہاں فرق آیا ہے، وہاں اسلام نے عورت کی فطرت اور اس کی جسمانی و ذہنی ساخت کو مدنظر رکھا ہے۔ مثال کے طور پر:

مردوں پر کفالت اور جہاد فرض ہے:

  • مرد پر گھر کی کفالت اور جہاد کی ذمہ داری ہے، لیکن عورت پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی گئی۔
  • اگر عورت سے بھی یہی توقع کی جاتی تو یہ اس پر ظلم ہوتا۔

عورت پر نرمی اور رعایت:

  • عورت کو مالی ذمہ داریوں سے آزاد رکھا گیا ہے، اور اس کی جسمانی کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے میدانِ جنگ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔

نتیجہ: صنفی عدل ہی اصل انصاف ہے

اسلام میں مرد و عورت کی تقسیم ان کے فطری کردار کے مطابق ہے۔ مساوات کے بجائے عدل کا نظام اپنانے سے ہی انصاف یقینی ہوتا ہے۔ عورت کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق حقوق دینا اور اس پر وہی فرائض عائد کرنا جو وہ بحسن و خوبی نبھا سکے، یہی حقیقی عدل ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے