جس جانور کو تیز ہتھیار یا شکاری جانوروں کے ذریعے شکار کیا جائے وہ حلال ہے جبکہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو
لغوی وضاحت: لفظِ صيد باب صَادَ يَصِيدُ (ضرب) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی شکار کرنا ہے۔ باب تصيد (تفعل) اور باب اِصْطَادَ (افتعال) کا بھی یہی معنی ہے ۔ صيد شکار کو اور صائد شکاری کو کہتے ہیں ۔
[لسان العرب: 450/7 ، المنجد: ص/488]
اصطلاحی تعریف: حلال جنگلی جانور کا شکار کرنا جو بالعموم کسی کی ملکیت و قبضہ میں نہیں ہوتا ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 2803/4 ، اللباب: 217/3 ، تبيين الحقائق: 50/6 ، كشاف القناع: 211/6]
مشروعیت:
اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا [المائدة: 2]
”جب تم احرام اتار دو تو شکار کھیل سکتے ہو ۔“
➋ أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۖ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا [المائدة: 96]
”تمہارے لیے دریا کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے ۔ تمہارے فائدے کے لیے اور مسافروں کے لیے اور خشکی کا شکار پکڑنا تمہارے لیے حرام کیا گیا ہے جب تک تم حالت احرام میں رہو ۔“
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ [المائدة: 4]
”آپ کہہ دیجیے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے یعنی جنہیں تم تھوڑا بہت وہ سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھی ہے ۔ پس جس شکار کو وہ تمہارے لیے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھاؤ اور اس پر اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر کر لیا کرو ۔“
➋ حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا میں تیر کمان سے بھی شکار کرتا ہوں اور اپنے اُس کتے سے بھی جو سکھایا ہوا نہیں ہے اور اُس کتے سے بھی جو سکھایا ہوا ہے تو اس میں سے کس کا کھانا میرے لیے جائز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وما صدت بقوسك فذكرت اسم الله فكل ، وما صدت بكلبك المعلم فذكرت اسم الله فكل ، وما صدت بكلبك غير معلم فأدركت ذكاته فكل
”جو شکار تم اپنے تیر کمان سے کرو اور (تیر پھینکتے وقت) اللہ کا نام لیا ہو تو (اس کا شکار ) کھا سکتے ہو اور جو شکار تم نے سدھائے ہوئے کتے کے ذریعے کیا ہو اور اس پر اللہ کا نام لیا ہو تو اسے بھی کھا سکتے ہو اور جسے تم اپنے غیر سدھائے ہوئے کتے کے ذریعے شکار کرو اور پھر اسے ذبح کرنے کا موقع مل جائے تو اسے بھی کھا سکتے ہو ۔“
[بخاري: 5478 ، كتاب الذبائح والصيد: باب صيد القوس ، مسلم: 1930 ، ابو داود: 2855 ، ابن ماجة: 1070 ، بيهقى: 244/9 ، أحمد: 193/14 ، منحة المعبود للطياسي: 340/1]
➌ ایک روایت میں ہے کہ ”جس نے شکاری کتے یا زراعت و مویشیوں کے نگہبان کتے کے علاوہ کوئی کتا رکھا تو روزانہ اس کا ایک قیراط اجر کم ہوتا رہے گا ۔“
[بخارى: 2322 ، 3324 ، كتاب بدء الخلق: باب إذا وقع الذباب فى شراب أحد كم ، مسلم: 1575 ، ترمذي: 1490 ، ابن ماجة: 3204 ، أحمد: 267/2]
(ابن عبدالبرؒ ) یہ احادیث ثبوت ہیں کہ شکاری کتا رکھنا جائز ہے ۔
[الا ستنذكار: 193/27]
لفظ جوارح جارح کی جمع ہے جو کا سب (کمانے والا) کے معنی میں ہے ۔ اس سے مراد شکاری کتا ، باز ، چیتا ، شکرا اور دیگر شکاری پرندے اور درندے ہیں ۔
لفظ مكلبين مطلب کی جمع ہے۔ اس سے مراد ایسا کتا ہے جسے شکار پر چھوڑنے سے پہلے سدھایا گیا ہو ۔
سدھانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کتا شکار پر چھوڑا جائے جو دوڑتا ہوا جائے جب اسے روکا جائے تو رک جائے اور جب شکار پکڑے تو اس سے کچھ نہ کھائے ۔
[سبل السلام: 1843/4 ، الروضة الندية: 399/2 ، نيل الأوطار: 210/5 ، كشاف: 606/1 ، تفسير فتح القدير: 13/2]