اسلام میں جھوٹ کی مذمت اور سچائی کی اہمیت
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

جھوٹ بولنا اسلام میں سخت ناپسندیدہ عمل

اسلام میں جھوٹ بولنا سخت ناپسندیدہ عمل ہے، اور قیامت کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی جھوٹ کا عام ہونا ہے۔ قرآن و سنت میں اس موضوع پر واضح دلائل موجود ہیں جو جھوٹ کی مذمت اور سچائی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔

قرآن میں جھوٹ کی مذمت

قرآن مجید میں جھوٹ کو سختی سے منع کیا گیا ہے اور اسے ایمان کی کمی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔

1. جھوٹ اور ایمان کی محرومی

سورہ النحل، آیت 105:
"إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ”
ترجمہ: "جھوٹ وہی لوگ بناتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے، اور وہی لوگ جھوٹے ہیں۔”

2. حق اور باطل کو ملانے کی ممانعت

سورہ البقرہ، آیت 42:
"وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ”
ترجمہ: "اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور نہ ہی حق کو چھپاؤ جب کہ تم جانتے ہو۔”

یہ آیات جھوٹ کی سنگینی اور حق کو چھپانے کی شدید مذمت کرتی ہیں۔

احادیث میں جھوٹ کی مذمت

نبی کریم ﷺ نے جھوٹ کو کبیرہ گناہوں میں شامل کیا اور اس کے سنگین نتائج سے آگاہ کیا۔

1. سچائی جنت کی طرف اور جھوٹ جہنم کی طرف لے جاتا ہے

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا، وَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا”
(صحیح بخاری: 6094، صحیح مسلم: 2607)
ترجمہ: "بے شک سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک اسے صدیق لکھ دیا جاتا ہے، اور جھوٹ فجور (گناہ) کی طرف لے جاتا ہے، اور فجور جہنم کی طرف لے جاتا ہے، اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک اسے کذاب (بہت زیادہ جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔”

2. منافق کی نشانی جھوٹ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ”
(صحیح بخاری: 33، صحیح مسلم: 59)
ترجمہ: "منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔”

قربِ قیامت کی نشانی: جھوٹ کا عام ہونا

قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ جھوٹ عام ہو جائے گا، اور لوگ بے خوف ہو کر جھوٹ بولیں گے۔

1. جھوٹ اور جھوٹی گواہی کا عام ہونا

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُظْهَرَ الزُّورُ وَيُفْشَى الْكَذِبُ”
(مسند احمد: 3789)
ترجمہ: "بے شک قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ جھوٹ عام ہو جائے گا اور جھوٹی گواہیاں دی جائیں گی۔”

2. دھوکہ دینے والے زمانے کا آنا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتٌ يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ”
(مسند احمد: 7899، سنن ابن ماجہ: 4036)
ترجمہ: "لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جو دھوکہ دینے والا ہوگا، اس میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا، خائن کو امانت دار سمجھا جائے گا اور امانت دار کو خائن، اور اس میں رذیل لوگ بات کریں گے۔”

جھوٹ کا معاشرتی نقصان

جھوٹ معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتا ہے:

◄ اعتماد کا فقدان: لوگ ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے۔
◄ انصاف کی کمی: جھوٹ انصاف کو ختم کر دیتا ہے۔
◄ اختلافات میں اضافہ: جھوٹ معاشرتی تفرقے کو بڑھاتا ہے۔

اسلام نے جھوٹ کو ہلاکت کا ذریعہ اور سچائی کو نجات کا راستہ قرار دیا ہے۔

نتیجہ

قرآن و سنت کے دلائل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جھوٹ ایک کبیرہ گناہ ہے اور قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ہے کہ جھوٹ عام ہو جائے گا۔ ہمیں جھوٹ سے بچنے، سچائی کو اپنانے، اور اسلامی اصولوں پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے