اسلام میں اجتہاد کی اہمیت اور اصول

اسلام: ایک ابدی مذہب

اسلام ایک ابدی مذہب ہے جو قیامت تک رہنمائی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
”اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ“
"بے شک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔”
(آل عمران:۱۹)۔
اس دین کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی جامعیت اور ہر دور کے مسائل کا حل پیش کرنے کی صلاحیت ہے۔ چاہے خلوت ہو یا جلوت، حکمران ہو یا محکوم، ایوان حکومت ہو یا فقیر کا گھر، اسلام ہر شعبہ زندگی میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

اسلام کی ابدی رہنمائی پر سوالات

یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرہ میں ہونے والے تغیرات اور ارتقاء کے دوران، انسانوں کی راہنمائی کا نظام کیا ہوگا؟ اور جب سلسلۂ وحی مکمل ہو چکا ہے، تو قیامت تک انسان آسمانی تعلیمات سے کیسے جڑے رہیں گے؟

مغربی تصور اور اسلامی نظریہ

مغرب کا کہنا ہے کہ انسانی معاشرہ اب بالغ ہو چکا ہے اور اسے وحی کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن مسلمان اس تصور کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق انسانی معاشرہ کسی بھی مرحلے پر آسمانی تعلیمات سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ اس لیے انسانی سوسائٹی کی رہنمائی کے لیے آسمانی تعلیمات کا تسلسل ضروری ہے۔

اجتہاد: نئے مسائل کا حل

قرآن و سنت میں ہر آنے والے مسئلے کی تفصیل موجود نہیں ہو سکتی، اس لیے اسلام نے انسانی معاشرہ کو عقل اور اجتہاد کے ذریعے نئے مسائل کا حل نکالنے کی اجازت دی ہے، بشرطیکہ یہ حل قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں ہو۔

اجتہاد کی تعریف

  • لغوی معنی: کسی کام کی تکمیل میں پوری قوت صرف کرنا۔
    (الاحکام فی اصول الاحکام:۴/۱۶۹)
  • شرعی معنی: کسی ایسے مسئلے میں شرعی حکم معلوم کرنے کی کوشش جس میں قرآن و سنت کا کوئی واضح حکم موجود نہ ہو۔

اجتہاد کا طریقہ کار

جناب نبی اکرم ﷺ خود بھی اجتہاد کیا کرتے تھے جب کسی مسئلے میں وحی نازل نہ ہوتی۔ صحابہ کرامؓ نے بھی اجتہاد کے اصول اپنائے:

حضرت ابوبکر صدیقؓ کا طریقہ

  • پہلے قرآن مجید میں مسئلے کا حکم تلاش کرتے۔
  • اگر قرآن میں نہ ملتا تو سنت نبویؐ سے رجوع کرتے۔
  • اگر سنت سے بھی کوئی رہنمائی نہ ملتی تو صحابہ سے مشورہ کر کے فیصلہ فرماتے۔

حضرت عمرؓ کا طریقہ

  • اگر قرآن و سنت سے کوئی حکم نہ ملتا تو حضرت ابوبکرؓ کے فیصلوں سے رہنمائی لیتے۔
  • اگر وہاں بھی رہنمائی نہ ملتی تو خود اجتہاد کرتے اور دوسرے نیک افراد سے مشورہ کرتے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قول

  • قرآن و سنت میں واضح حکم نہ ملے تو پہلے نیک بندوں کے فیصلے دیکھے جائیں۔
  • اگر اس میں بھی رہنمائی نہ ملے تو اپنی رائے سے اجتہاد کیا جائے۔

اجتہاد کے اصول

  • قرآن و سنت کا واضح حکم ہو تو اجتہاد کی ضرورت نہیں۔
  • سابقہ مجتہدین کے فیصلے کی پیروی کی جائے۔
  • اگر سابقہ فیصلے نہ ملیں تو مسئلے سے ملتے جلتے امور پر قیاس کر کے اجتہاد کیا جائے۔

تابعین اور مجتہدین کا کردار

تابعین کے دور میں اجتہاد کے اصول و ضوابط کو مزید واضح کیا گیا تاکہ اجتہاد ایک منظم اور باقاعدہ عمل بن سکے۔ امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، اور امام احمد بن حنبلؒ جیسے ائمہ کرام نے اجتہاد کے اصولوں کو ترتیب دیا اور امت میں ان کی بنیاد پر فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے۔

اجتہاد کے لیے مجتہد کی شرائط

  • قرآن، سنت، عربی زبان، اور سابقہ اجتہادات پر عبور۔
  • مسائل کو قرآن و سنت کے دائرے میں رہتے ہوئے حل کرنے کی صلاحیت۔

اجتہاد کا مقصد

اجتہاد کا مطلب یہ نہیں کہ شارع کے احکام کو محدود کر دیا جائے، بلکہ اس کے ذریعے نصوص کے دائرہ کار کو وسیع کر کے نئے مسائل کو ان کے تحت لایا جائے۔ مثلاً، ایک حدیث کے مطابق روزے میں جماع کرنے پر کفارہ لازم ہوتا ہے
(بخاری، باب اذا جامع فی رمضان، حدیث نمبر:۱۸۰۰)،
لیکن فقہاء نے اجتہاد کے ذریعے اس حکم کو روزہ توڑنے کے دیگر اسباب، جیسے کھانے پینے، پر بھی لاگو کیا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے