مغرب اور عورت کے حقوق کی حقیقت
اسلام پر تنقید کرتے وقت مغربی معاشرہ اکثر اپنی تاریخ فراموش کر دیتا ہے۔ آج مغرب میں عورت کے لیے حقوق کی بات کی جاتی ہے، لیکن اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو تصویر بالکل مختلف نظر آتی ہے:
1. انجیل، یوحنا اور توریت
ان مقدس کتابوں کی موجودہ شکل میں عورت کے حقوق نہایت محدود دکھائے گئے ہیں، جبکہ اسلام نے 1400 سال پہلے عورت کو حقوقِ وراثت اور حقِ ملکیت دیا۔
2. انگریز دور کا قانون
19ویں صدی تک برطانوی قانون میں عورت کو وراثت سے بالکل محروم رکھا گیا۔ حتیٰ کہ "ایسٹ انڈیا کمپنی” کے دور میں برصغیر میں بھی عورت کو جائیداد سے بے دخل کر دیا گیا۔
جائیداد میں عورت کا حق: اسلام بمقابلہ مغرب
مغرب کا اصول
مغرب میں عورت کو جائیداد میں پچاس فیصد کا اصول دیا گیا، لیکن یہ اصول نہایت محدود اور عملاً ناقص ثابت ہوا۔ اگر ایک خاندان میں آٹھ افراد ہوں اور عورت آدھی جائیداد لے جائے، تو پیچھے رہ جانے والوں کی ضروریات کیسے پوری ہوں گی؟
اسلام کا اصول
◄ عورت کو حق مہر دیا جاتا ہے، جو اس کی ملکیت ہوتی ہے۔
◄ شوہر کی وفات پر وہ آٹھواں حصہ پاتی ہے۔
◄ باپ کی جائیداد سے بھی اسے حصہ دیا جاتا ہے۔
ان سب کو اگر جمع کریں تو عورت کو مجموعی طور پر مغربی اصول سے زیادہ حقوق ملتے ہیں۔
جسمانی آزادی اور عزت کی حفاظت
مغرب کا نظریہ
عورت کو کپڑے اتارنے کی آزادی دی جائے تو "آزاد” کہلاتی ہے، لیکن اگر کوئی زبردستی کر دے تو وہ "مظلوم” ہو جاتی ہے۔
اسلام کا نظریہ
اسلام نے عورت کی عزت و عصمت کی حفاظت کے لیے پردے کا نظام اور زنا کے لیے سخت سزائیں مقرر کیں تاکہ کوئی عورت ریپ یا استحصال کا شکار نہ ہو۔
زندہ دفن کرنے کی رسم کا خاتمہ
اسلام نے پہلی قانونی شق میں یہ واضح کیا کہ بیٹیوں کو نان و نفقہ کے خوف سے زندہ نہ دفن کیا جائے، جبکہ مغرب آج بھی اسقاطِ حمل (Abortion) کی حمایت کرتا ہے، جو ایک شکل میں بچیوں کو پیٹ میں ہی ختم کرنے کے مترادف ہے۔ اسلام اس عمل کو قتل قرار دیتا ہے اور اس کی سزا مقرر کرتا ہے۔
نتیجہ
اسلام نے عورت کو مکمل حقوق اور عزت دی، جبکہ مغرب کی تاریخ میں عورت کو صدیوں تک محرومی کا سامنا کرنا پڑا۔ آج بھی مغرب عورت کو ایک "مارکیٹنگ پراڈکٹ” بنا کر پیش کرتا ہے، جس پر شیطان بھی پناہ مانگے۔