موجوداتِ دنیا کے وجودیاتی اور علمی مواقف کا تحقیق پر اثر
یہ مقالہ اس سوال کا جواب تلاش کرتا ہے کہ موجوداتِ دنیا کے بارے میں کسی فرد کا وجودیاتی (Ontological) اور علمی (Epistemological) موقف تحقیق کے عمل، نظریہ سازی، اور علمی نتائج پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ مقالہ مغربی اور اسلامی تحقیقاتی ماڈلز کا موازنہ کرتے ہوئے اُن کے فلسفوں، اصولوں، اور خامیوں کو بھی واضح کرتا ہے۔
اہم نکات
وجودیاتی و علمی مباحث کی تاریخ
- مغربی فکر کے تاریخی مراحل:
- نشاۃ ثانیہ، اصلاحات، اور روشن خیالی نے مغربی فلسفے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔
- ان ادوار میں چرچ اور سائنس کے درمیان تصادم نے دنیا کی حقیقت کو سمجھنے کے تجربی طریقوں کو جنم دیا۔
- اسلامی فکر کی شمولیت:
- تجربی تحقیق اور سائنسی اصول مسلمانوں کے ذریعے مغرب تک پہنچے، جیسا کہ جارج سارٹن، رابرٹ بریفالٹ، اور دیگر نے تسلیم کیا۔
جدید تحقیق کی محدودیت
سیکولر فلسفے کی خامیاں:
- مغربی تحقیقاتی ماڈل میں صرف مشاہدے اور تجربے کو حقیقت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، جبکہ اخلاقیات اور نادیدہ حقیقتوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
سماجی علوم پر اثرات:
- مغربی تحقیقاتی ماڈل میں نیچرل سائنسز کے اصول سماجی علوم پر نافذ کیے گئے، جس سے انسانی رویے کی پیچیدگیوں کو نظرانداز کیا گیا۔
- مقدار (Quantity) پر زیادہ زور دیا گیا ہے جبکہ معیار (Quality) کو نظرانداز کیا گیا۔
اسلامی ماڈل کی جامعیت
- ہدایت کی مرکزیت: اسلامی ماڈل خدا کی وحدانیت اور ہدایت کو تحقیق کا بنیادی محور قرار دیتا ہے۔
- علم کے مختلف ذرائع کا انضمام: عقل، وجدان، تجربہ، اور وحی کو یکجا کرنے کا اصول پیش کرتا ہے۔
- انسان کا مقصد: اسلامی فلسفے میں انسان کو خدا کا نائب (خلیفہ) سمجھا گیا ہے جسے دنیا کو بہتر بنانے اور اخلاقیات کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔
موجودہ عالمی بحران اور اسلامی تحقیقاتی ماڈل کی اہمیت
- معاشی نظام کی ناکامی: موجودہ معاشی بحران نے مغربی ماڈلز کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا اور اخلاقیات کی ضرورت پر زور دیا۔
- اسلامی طرز فکر کی ضرورت: اسلامی ماڈل کی جامعیت اور ہمہ گیریت اس بحران کا متبادل فراہم کر سکتی ہے۔
تجاویز
تحقیق اور عمل کے لیے اسلامی ماڈل
- تحقیقی نظام کی تشکیل: اسلامی اصولوں کی روشنی میں جدید تحقیقی طریقوں کو فروغ دیا جائے۔
- اقدار اور اخلاقیات کی بحالی: تحقیق میں اخلاقیات اور انسانی فلاح کو مرکزی حیثیت دی جائے۔
- عالمی مسائل کا حل: اسلامی ماڈل کو موجودہ عالمی چیلنجز جیسے معاشی عدم مساوات اور سماجی مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا جائے۔
- تعلیمی و فکری قیادت کی ضرورت: اساتذہ اور طلبہ کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں فکری قیادت فراہم کرنی چاہیے تاکہ دنیا میں اسلام کے علمی ماڈل کی برتری ثابت ہو۔