خلاصہ
- کچھ افراد پوری اسلامی علمی روایت کو نادانی پر مبنی قرار دے کر خود کو قرآن کے فہم کے حقیقی وارث قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ امت چودہ سو سال سے قرآن کو فہم و بصیرت کے ساتھ پڑھ رہی ہے۔
- ان کا یہ تضاد کہ "قرآن سمجھنا آسان ہے” لیکن ساتھ ہی "چودہ سو سال سے اسے کوئی نہیں سمجھ سکا” ان کے فکری خلل کو ظاہر کرتا ہے۔
- اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت اور اس کے فہم کی بقا کا وعدہ کیا ہے، اس لیے یہ کہنا کہ امت کو اب تک اس کا صحیح مفہوم نہیں ملا، اس وعدے کی نفی کے مترادف ہے۔
- اسلام کی وہ تشریحات جو جدیدیت کی روشنی میں اسلامی تاریخ سے دور کرنے کی کوشش کرتی ہیں، مسلمانوں کو سرمایہ دارانہ نظام میں ضم کرنے کا ذریعہ ہیں اور ان سے بچنا ضروری ہے۔
اسلامی علمی روایت اور قرآن کا فہم
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ کچھ لوگ بڑے طمطراق سے پوری اسلامی علمی روایت، مفسرین، محدثین، فقہا، اور صوفیا پر یہ فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ ان کی تفہیم اور تشریحات نادانی اور کم عقلی پر مبنی ہیں۔ ان کا مفروضہ یہ ہے کہ گویا قرآن ان کے ہاتھوں میں پہلی بار آیا ہے اور اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کو قرآن کے اصل مفہوم سے روشناس کرائیں۔ یہ رویہ اس حقیقت کو یکسر نظرانداز کرتا ہے کہ قرآن چودہ سو سال سے مسلمانوں کی زندگیوں کا مرکز رہا ہے، اور تمام بڑے علما اور مفسرین نے اس کی گہرائی میں اتر کر اس کے مختلف پہلوؤں کو امت کے سامنے رکھا ہے۔
تضاد اور فکری خلل
یہ تضاد اس وقت مزید نمایاں ہوتا ہے جب وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ "قرآن سمجھنا آسان ہے” اور اس کے لیے کسی اصول یا رہنمائی کی ضرورت نہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ چودہ سو سال تک امت اسے سمجھنے میں ناکام رہی۔ اگر قرآن کو سمجھنے کے لیے کوئی اصول یا تفسیری قواعد ضروری نہیں، تو پھر یہ لوگ کیوں "اپنے اصول” متعارف کروانا چاہتے ہیں؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہی موقف کے برخلاف دوسروں پر اپنی تشریحات تھوپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اللہ کا وعدہ اور قرآن کا فہم
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں وعدہ کیا ہے کہ وہ خود اس کتاب کو واضح اور محفوظ کرے گا۔ جیسا کہ سورۃ القیامہ میں فرمایا: "بے شک اسے جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمے ہے”
(قیامہ 16-17)۔ یہ وعدہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کی حفاظت اور اس کے فہم کی بقا اللہ کی طرف سے طے شدہ ہے۔ لیکن یہ دعویٰ کہ امت کو چودہ سو سال تک قرآن کا صحیح فہم نہیں ملا، گویا اس وعدے کی نفی کے مترادف ہے۔
جدید مفسرین کا مفروضہ اور اس کے اثرات
یہ مفروضہ کہ آج کے جدید مفسرین پہلی بار قرآن کو صحیح طور پر سمجھا رہے ہیں، دراصل ایک لغو اور غیر معقول دعویٰ ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے افراد اپنی فکری بنیادیں کمزور رکھے ہوئے ہیں اور اسلامی علمی ورثے سے کٹ چکے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلامی تاریخ اور علمی ورثے سے کاٹ کر سرمایہ داری کی طرف لے جائیں اور انہیں جدید مغربی نظریات میں ضم کر دیں۔
اسلامی تشریحات اور جدید سرمایہ دارانہ نظام
اسلام کی ہر وہ جدید تعبیر یا تشریح، جو اسلامی تاریخ اور اس کی بنیادوں سے منسلک نہ ہو اور جس میں قرون اولیٰ کی طرف مراجعت یعنی احیائے اسلام کا عنصر شامل نہ ہو، وہ یقیناً مشکوک ہے۔ ایسی تشریحات مسلمانوں کو ان کے حقیقی ورثے سے دور کر کے جدید سرمایہ دارانہ نظام میں شامل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔