اسلامی وراثت میں عدل و حکمت کے اصول

اسلامی وراثت پر اعتراضات

بعض ناقدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام کے وراثتی احکام میں انصاف کا لحاظ نہیں رکھا گیا، خاص طور پر اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ عورت کا حصہ مرد سے نصف کیوں ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت میں اسلامی نظامِ وراثت میں وارثین کے درمیان فرق کی وجہ مرد و عورت کا اختلاف نہیں بلکہ تین بنیادی اصول ہیں:

قربت کا درجہ:

جتنا وارث میت کے قریب ہوگا، اس کا حصہ اتنا زیادہ ہوگا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ مثلاً بیٹی کو ماں سے بھی زیادہ حصہ ملتا ہے، اور بیٹے کا حصہ باپ سے زیادہ ہوتا ہے۔

نسل کی ذمہ داری:

آنے والی نسل، جیسے بیٹے اور بیٹیاں، کا حصہ جانے والی نسل، یعنی والدین کے مقابلے میں زیادہ رکھا گیا ہے کیونکہ وہ زندگی کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔

مالی ذمہ داریاں:

جس وارث پر مالی بوجھ زیادہ ہو، اس کا حصہ بھی زیادہ رکھا گیا ہے۔

وراثتی حصص کی چار ممکنہ صورتیں

اسلامی وراثت میں چار ممکنہ صورتیں پائی جاتی ہیں:

◄ عورت کو مرد سے کم حصہ ملتا ہے۔
◄ عورت اور مرد کا حصہ برابر ہوتا ہے۔
◄ عورت کو مرد سے زیادہ حصہ ملتا ہے۔
◄ عورت کو وراثت ملتی ہے لیکن اسی درجے کا مرد وارث نہیں ہوتا۔

پہلی صورت: عورت کا نصف حصہ

عورت کو چار مخصوص حالات میں مرد سے نصف حصہ ملتا ہے:

بیٹے اور بیٹیاں:

اگر میت کے بیٹے اور بیٹیاں ہوں تو بیٹے کا حصہ بیٹی سے دوگنا ہوگا۔ لیکن بیٹی کو مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں کیونکہ اس پر کفالت کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔

مثال: اگر میت 30 ہزار روپے چھوڑے اور اس کا وارث ایک بیٹا اور بیٹی ہو، تو بیٹی کو 10 ہزار اور بیٹے کو 20 ہزار ملیں گے۔ شادی کے بعد بیٹی کو مہر کی رقم کے ساتھ 20 ہزار روپے ملیں گے، جبکہ بیٹے کو اپنی بیوی کا مہر ادا کرنے کے بعد 10 ہزار ہی بچتے ہیں، اس طرح بیٹی نفع میں رہتی ہے۔

حقیقی یا علاتی بہنیں:

اگر میت کے حقیقی یا علاتی بھائی بہن ہوں، تو بہن کو بھی بیٹی کی طرح نصف حصہ ملتا ہے۔

والدین:

اگر میت کی اولاد نہ ہو تو والدہ کو ایک تہائی اور والد کو باقی دوتہائی حصہ ملتا ہے۔ والد پر گھر کی کفالت کی ذمہ داری ہونے کی وجہ سے اس کا حصہ زیادہ ہے۔

میاں اور بیوی:

شوہر کے انتقال پر بیوی کو اولاد کی موجودگی میں آٹھواں اور اولاد نہ ہونے پر چوتھائی حصہ ملتا ہے۔ بیوی کے انتقال پر شوہر کو اولاد کی موجودگی میں چوتھائی اور اولاد نہ ہونے پر نصف حصہ دیا جاتا ہے۔

دوسری صورت: مرد اور عورت کا برابر حصہ

کئی مواقع پر مرد اور عورت کا حصہ برابر ہوتا ہے:

والدین:

میت کی اولاد ہونے کی صورت میں ماں اور باپ دونوں کو چھٹا حصہ ملتا ہے۔

کلالہ:

اگر میت کی صرف ماں کی طرف سے بہن بھائی ہوں تو سب کو برابر حصہ ملتا ہے۔

سگا بھائی اور بہن:

میت کا شوہر اور سگا بھائی یا بہن دونوں برابر کے حصے کے مستحق ہوتے ہیں۔

دیگر مثالیں:

کئی فقہی مسائل میں بھی سگے بہن بھائی، اخیافی بہن بھائی اور دیگر رشتہ داروں کا حصہ برابر ہوتا ہے۔

تیسری صورت: عورت کا مرد سے زیادہ حصہ

دو تہائی حصہ:

وراثت میں سب سے بڑا حصہ دو تہائی ہے، جو اکثر عورتوں کو دیا جاتا ہے، جیسے دو یا دو سے زائد بیٹیاں، بہنیں یا پوتیاں۔

آدھا حصہ:

چار عورتوں کو آدھے مال کا حصہ دیا جاتا ہے: بیٹی، پوتی، سگی بہن اور علاتی بہن۔

ایک تہائی حصہ:

ماں کو اگر میت کی اولاد نہ ہو، تو ایک تہائی حصہ ملتا ہے۔

دیگر حصے:

چھٹا، چوتھائی اور آٹھواں حصہ بھی کئی مواقع پر عورت کو زیادہ فائدہ دیتا ہے۔

چوتھی صورت: صرف عورت کا وارث ہونا

ایسی صورت میں جہاں علّاتی بھائی کو حصہ نہیں ملتا:

اگر علّاتی بہن وارث ہو اور علّاتی بھائی بھی ہو، تو بعض فقہی مسائل میں بھائی حصہ نہیں پاتا، لیکن بہن اپنا مقررہ حصہ حاصل کرتی ہے۔

اگر صرف عورت وارث ہو:

مثال کے طور پر اگر بیوی یا بیٹی اکیلی وارث ہو تو پورا مال اسے دیا جا سکتا ہے۔

خواتین سے حسنِ سلوک کی تعلیم

جاہلیت کے دور میں محرومی:

اسلام سے پہلے عورتیں وراثت سے محروم تھیں، لیکن اسلام نے انہیں حصہ دیا۔

بیٹی کی کفالت:

شادی سے پہلے بیٹی کا خرچ والد کے ذمے ہے، اور طلاق کی صورت میں وہ دوبارہ والد یا دیگر ولی کی کفالت میں آجاتی ہے۔

بیوی کے حقوق:

نان و نفقہ، رہائش، اور دیگر ضروریات شوہر کی ذمہ داری ہے۔

والدین کے ساتھ حسنِ سلوک:

قرآن میں والدین خصوصاً ماں کا حق تین گنا زیادہ بیان ہوا ہے۔

قرآنی ہدایت اور حسد سے بچنے کی تلقین

وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا ط وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ
"اور اس چیز کی تمنا نہ کرو جس میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ مردوں کے لیے ان کے اعمال میں سے حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کے اعمال میں سے حصہ ہے۔”
(النساء 4:32)

یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مرد و عورت کے درمیان تقسیمِ وراثت میں جو فرق ہے، وہ حکمت اور انصاف پر مبنی ہے۔ دنیاوی معاملات میں تفاوت کے باوجود آخرت میں ہر شخص کو اس کے ایمان اور اعمال کی بنیاد پر اجر دیا جائے گا۔

مضمون کا حوالہ

یہ مضمون ڈاکٹر صلاح الدین سلطان کی کتاب امتياز المرأة على الرجل في الميراث والنفقة سے لیا گیا ہے اور اس میں دیگر ماخذات جیسے علم الفرائض، تیسیر فقہ المواریث اور المواریث فی الشریعۃ الإسلامیہ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے