انسانی زندگی کے لیے جو بھی نظام ترتیب دیا جائے، اس کی بنیاد ما بعد الطبیعی یا الٰہیاتی سوالات پر ضرور ہوتی ہے
جب تک انسان اور کائنات کے بارے میں واضح تصور قائم نہ ہو، زندگی کے مسائل کا کوئی قابلِ عمل حل ممکن نہیں۔ انسان کو دنیا میں کیسے رہنا چاہیے اور اس کا کردار کیسا ہونا چاہیے، یہ سوالات اسی تصور سے جڑے ہوئے ہیں کہ کائنات کا نظام کیسا ہے، اور اس نظام کے مطابق انسان کو کس طریقے سے خود کو ڈھالنا چاہیے۔
نظامِ اخلاق اور زندگی کے مختلف شعبوں پر اثرات
جس تصورِ کائنات کو اپنایا جائے گا، اسی بنیاد پر اخلاقیات کا نظریہ تشکیل پائے گا۔
یہی اخلاقی نظام انفرادی کردار، اجتماعی تعلقات، اور قوانین کو متاثر کرے گا۔
دنیا میں جو مختلف مذاہب اور فلسفے بنے، وہ اسی بنیادی فلسفے اور اخلاقی نقطۂ نظر کی بنیاد پر ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔
زندگی کے چار بنیادی نظریات
➊ جاہلیتِ خالصہ
نظریے کا خلاصہ:
یہ نظریہ کہتا ہے کہ کائنات ایک اتفاقی حادثہ ہے، جس کے پیچھے کوئی حکمت یا مقصد نہیں۔
انسان کی حیثیت:
انسان محض ایک حیوان ہے، جس کا مقصد صرف اپنی خواہشات کی تکمیل ہے۔
اخلاقیات کا تصور:
انسان خود اپنی تاریخ اور تجربات سے قانون بناتا ہے کیونکہ اسے کسی اعلیٰ ہدایت کا کوئی ذریعہ حاصل نہیں۔
جواب دہی کا نظام:
انسان کسی اعلیٰ ہستی کے سامنے جواب دہ نہیں، صرف دنیاوی نتائج ہی اس کے اعمال کی بنیاد بنتے ہیں۔
تاریخی پس منظر:
یہ نظریہ دنیا پرستوں، بادشاہوں، اور خوشحال طبقوں میں مقبول رہا ہے۔ موجودہ مغربی تمدن میں بھی یہی مادّہ پرستانہ سوچ غالب ہے، اگرچہ بظاہر خدا اور آخرت کے ماننے والے موجود ہیں، لیکن عملی زندگی میں مادیت ہی ان پر حاوی ہے۔
➋ جاہلیتِ مشرکانہ
نظریے کا خلاصہ:
یہ نظریہ کہتا ہے کہ کائنات کا نظام کسی ایک خدا کے بجائے متعدد خداؤں کے تحت ہے۔
معبودوں کا تصور:
مختلف اقوام نے اپنے اپنے انداز میں جن، فرشتے، سیارے، اور دیگر مظاہرِ فطرت کو دیوتا مانا۔
اخلاقی و تمدنی اثرات:
شرک کا نظام اخلاقی ہدایت دینے کے قابل نہیں، اس لیے انسانی قوانین اور اخلاقیات جاہلیتِ خالصہ کے اصولوں پر ہی استوار رہتے ہیں۔
تاریخی پس منظر:
قدیم بابل، مصر، ہندوستان، اور یونان کی تہذیبیں اس نظریے پر قائم رہیں۔ موجودہ دور میں بھی کئی سوسائٹیاں شرک اور خالص جاہلیت کے امتزاج سے تشکیل پاتی ہیں۔
➌ جاہلیتِ راہبانہ
نظریے کا خلاصہ:
دنیا اور جسمانی خواہشات کو گناہ اور عذاب کی جڑ سمجھا جاتا ہے، اور نجات کا راستہ ان سے دوری اختیار کرنے میں ہے۔
رہبانیت کے اثرات:
نیک لوگ گوشۂ عزلت میں چلے جاتے ہیں اور سماجی ذمہ داریوں سے کتراتے ہیں۔
عوام میں غلط صبر و تحمل پیدا ہوتا ہے، جس کا فائدہ ظالم طبقات اٹھاتے ہیں۔
دینی نظام میں شدت، جمود، اور جزئیات میں الجھنے کی بیماری عام ہو جاتی ہے۔
تاریخی پس منظر:
بدھ مت، مسیحیت، اور تصوف میں اس نظریے کے مختلف اثرات دیکھے گئے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کی امتوں میں جب یہ نظریہ داخل ہوا تو دین کی روح متاثر ہوئی اور ذمہ داریوں سے فرار کا رجحان بڑھا۔
➍ اسلام: انبیاء کا پیش کردہ نظریہ
نظریے کا خلاصہ:
کائنات ایک ہی بادشاہ یعنی اللہ تعالیٰ کی سلطنت ہے، اور انسان اس سلطنت کا ایک ذمہ دار فرد ہے۔
انسان کی حیثیت:
انسان آزاد نہیں بلکہ اللہ کا بندہ اور اس کا جواب دہ ہے۔
ہدایت کا ذریعہ:
زندگی گزارنے کا قانون اللہ کی وحی کے ذریعے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ آتا ہے۔
آزمائش کا نظام:
یہ دنیا ایک امتحان ہے، جہاں انسان کو عقل و شعور اور آزادی دے کر آزمایا جاتا ہے۔ آخرت میں اصل جزا و سزا ملے گی۔
اخلاقی نظام:
اسلام ایک مکمل اور جامع اخلاقی و تمدنی نظام فراہم کرتا ہے جو دیگر تمام جاہلی نظاموں سے مختلف اور منفرد ہے۔
تمدنی اثرات:
اسلامی تہذیب کی ہر چیز اللہ کی حاکمیت اور آخرت پر ایمان کے تابع ہوتی ہے۔ اس نظام میں اخلاق، قانون، حکومت، معیشت، اور معاشرت کے تمام اصول جاہلیت کے اصولوں سے مختلف اور بہتر ہیں۔
نتیجہ
اسلام ایک ایسا جامع نظامِ زندگی پیش کرتا ہے جو نہ صرف مابعد الطبیعی سوالات کا جواب دیتا ہے بلکہ عملی زندگی کے تمام پہلوؤں میں انسان کو راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس کے برعکس، جاہلی نظریات خواہ وہ جاہلیتِ خالصہ ہو، مشرکانہ ہو یا راہبانہ، انسان کو گمراہی اور اخلاقی و تمدنی بگاڑ کی طرف لے جاتے ہیں۔