موجودہ جمہوری نظاموں کی صورتحال
موجودہ جمہوری نظاموں میں سربراہ حکومت یا پارلیمنٹ کے ارکان کے لیے عام طور پر اہلیت کی کوئی خاص شرائط مقرر نہیں کی جاتیں۔ زیادہ تر آئین میں صرف یہ ذکر ہوتا ہے کہ امیدوار اپنے ملک کا شہری ہو اور ووٹر لسٹ میں اس کا نام درج ہو۔ ووٹر لسٹ میں نام درج کرانے کے لیے بھی صرف ایک خاص عمر کی شرط ہوتی ہے، اور بس!
تعلیم اور کردار کی شرط:
- امیدوار کے لیے نہ کسی تعلیمی قابلیت کی شرط ہے اور نہ ہی کردار کی۔
- اکثریتی ووٹ: یہ تصور موجود ہے کہ جسے اکثریت ووٹ دے، وہی سربراہ یا رکن پارلیمنٹ بننے کا اہل ہے۔
اس کے نتیجے میں، جاہل اور بدکردار لوگ بھی سربراہ بن جاتے ہیں۔ تاریخی مثال کے طور پر، امریکہ کے سابق صدر کینیڈی کی زندگی کی بدنام داستانیں آج بھی کتب میں موجود ہیں، حالانکہ وہ ایک بااثر حکمران تھے۔
اسلام میں امیر کی اہلیت
اسلامی نظام حکومت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سربراہ کے لیے واضح اوصاف مقرر کیے گئے ہیں۔ علماء نے اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے، اور یہ متفقہ بات ہے کہ کسی بھی فرد کو خلیفہ یا امیر مقرر کرنے کے لیے ان اوصاف کا پایا جانا لازمی ہے۔
امیر کا انتخاب اور تقرر
اسلام کا اصول
- امیر مقرر کرنا فرض ہے: فقہ اور عقائد کی کتب میں اس عمل کو "نصب الامام” کہا جاتا ہے۔
- تقرر شوریٰ کے ذریعے ہو:
"وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ”
(الشوریٰ، 42:38)ترجمہ: "اور ان سے مشورہ کیا کرو، پھر جب عزم کر لو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔”
نبی اکرم ﷺ نے کسی خاص خلیفہ کو نامزد نہیں فرمایا، بلکہ اس معاملے کو عام مسلمانوں پر چھوڑ دیا۔ اگر نامزدگی ضروری ہوتی تو آپ ﷺ کسی کو مقرر فرما دیتے۔
خلافت اور شوریٰ کا طریقہ
- حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
"جو شخص مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر کسی کے ہاتھ پر بیعت کرے، تو نہ اس کی بیعت معتبر ہوگی اور نہ اس کی پیروی کی جائے گی۔”
(صحیح بخاری، کتاب الحدود، باب رحم الحبلی من الزنا، حدیث 6830) - حضرت ابوہریرہؓ کی روایت میں حضرت عمرؓ فرماتے ہیں:
"جو شخص مسلمانوں کے معاملات کو مشورے کے بغیر زبردستی چھینے، اس کی بیعت نہیں ہوتی۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ، 12:307)
ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ خلافت کے لیے شوریٰ ضروری ہے۔
شوریٰ کا مفہوم اور طریقہ
شوریٰ کا عمومی مفہوم
شوریٰ کا مطلب یہ نہیں کہ ہر بالغ فرد امیر کے انتخاب میں حصہ لے۔ بلکہ اہلِ علم کے مطابق، شوریٰ کا مطلب ہے کہ انتخاب کا فیصلہ "اہلِ حل و عقد” کریں۔
خلافت راشدہ میں شوریٰ کی مثالیں
- حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب: انصار و مہاجرین کی جماعت کے مشورے سے ہوا۔
- حضرت عمرؓ کی نامزدگی: حضرت ابوبکرؓ نے مشورے کے بعد حضرت عمرؓ کو نامزد کیا۔
- حضرت عثمانؓ کا انتخاب: حضرت عمرؓ نے چھ صحابہ پر مشتمل کمیٹی بنائی، جس نے حضرت عثمانؓ کو خلیفہ مقرر کیا۔
- حضرت علیؓ کا معاملہ: جب لوگوں نے بیعت کے لیے ان کے ہاتھ کی طرف بڑھایا تو آپؓ نے فرمایا کہ یہ معاملہ اہل شوریٰ اور اہل بدر کا ہے، اور وہی فیصلہ کریں گے۔
(الامامۃ والسیاسۃ، ابن تیمیہ، ج 1، ص 43)
اہلِ حل و عقد کا تعین
اہلِ حل و عقد وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں عوام صائب الرائے اور رہنما مانتے ہوں۔ خلافت راشدہ کے دور میں یہ علماء، فقہا، قبائلی سردار اور معاشرے کے دیگر سربراہان تھے۔
موجودہ دور میں شوریٰ کا اطلاق
جدید طریقے
- موجودہ دور میں اہلِ حل و عقد کے تعین کے لیے باقاعدہ انتخاب کی ضرورت ہے:
- یہ انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہو سکتا ہے۔
- یا انتخابی ادارہ (Electoral College) تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
- مجلس شوریٰ کا کردار: شریعت نے شوریٰ کے لیے کسی مخصوص ڈھانچے یا طریقہ کار کو لازم قرار نہیں دیا، بلکہ تفصیلات ہر دور کے مسلمانوں پر چھوڑ دی ہیں۔
- آج کے دور میں باقاعدہ منتخب مجلس شوریٰ کا قیام ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ مشورہ نظام میں شفافیت اور استحکام پیدا ہو۔
- شوریٰ کا ڈھیلا ڈھالا طریقہ موجودہ حالات میں مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
شریعت کی حکمت
اسلامی احکام کسی خاص خطے یا زمانے تک محدود نہیں ہیں، بلکہ قیامت تک تمام معاشروں کے لیے قابل عمل ہیں۔ اس لیے شوریٰ کا نظام ہر دور کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا جا سکتا ہے۔
خلاصہ
اسلامی حکومت میں امیر یا خلیفہ کے لیے اہلیت اور تقرر کا طریقہ واضح ہے۔ سربراہ کے اوصاف، شوریٰ کے ذریعے انتخاب، اور اہلِ حل و عقد کا کردار اس نظام کی بنیاد ہیں۔ موجودہ دور میں بھی ان اصولوں کو اپنانا ضروری ہے، مگر طریقہ کار کے تعین میں حالات اور مصلحت کو مدنظر رکھا جا سکتا ہے۔